24 اپریل 2025 کے بعد جنوبی ایشیا میں آبی سیاست ایک نئے اور تشویشناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اعلان اور اس کے بعد دریائے چناب پر نئے ڈیم کی تعمیر کے فیصلے نے نہ صرف پاکستان کے آبی تحفظات کو سنگین بنا دیا ہے بلکہ خطے میں کشیدگی میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ پاکستان ان اقدامات کو کھلی آبی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔
27 دسمبر کو دفترِ خارجہ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 24 اپریل کو جب بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا تو ہم نے بھارتی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردی تھی۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حال ہی میں بھارت کی فضائی کمپنی ایئر انڈیا نے اعلان کیاکہ پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارت کو اب تک 4 ہزار کروڑ کا نقصان ہو چُکا ہے۔
معاہدے کی یکطرفہ معطلی: ایک خطرناک نظیر
24 اپریل 2025 کو بھارت نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ ماہرین کے مطابق معاہدے میں کسی ایک فریق کو یکطرفہ معطلی کا اختیار حاصل نہیں، اور اس فیصلے کے بعد وہ تمام مشترکہ میکانزم عملاً غیر مؤثر ہو گئے جو گزشتہ 6 دہائیوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کے حل اور شفافیت کا ذریعہ تھے، جن میں انڈس واٹر کمیشن کی باقاعدہ میٹنگز، تکنیکی تبادلہ اور آبی ڈیٹا کی فراہمی شامل تھی۔
حال ہی میں انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دریائے چناب میں پانی کا بہاؤ شدید طور پر کم ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب کو باقاعدہ خط بھی لکھا ہے لیکن اُس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
مہر علی شاہ نے بتایا کہ 16 دسمبر کو دریائے چناب میں پانی کا بہاؤ صرف 1800 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
آبی معلومات اور ڈیٹا کی بندش
معاہدے کی معطلی کے فوری بعد بھارت نے پاکستان کو دریاؤں کے بہاؤ، ڈیم آپریشن، سیلابی صورتحال اور مستقبل کے منصوبوں سے متعلق پیشگی اطلاعات دینا بند کردیں۔






























