افغان سیٹزن کارڈ والے باشندوں کی واپسی:اب تک کتنے افغان باشندے واپس جاچکے ہیں؟

پاکستان میں غیر قانونی افغان باشندوں کے بعد اب حکومت نے افغان سیٹزن کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کو بھی 31 مارچ تک رضاکارانہ طور واپسی کی ڈیڈلائن دی ہے۔ جس کے بعد کارروائی کا امکان ہے۔

محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے ایک آفیسر مطابق وفاق نے اس حوالے صوبے کو آگاہ کیا ہے۔ اور ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد حکومتی احکامات پر عمل درآمد کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاق سے ہدایت ملنے کے بعد متعلقہ حکام کی افغان باشندوں کی واپسی کے عمل بھی کڑی نظر ہے۔

رضاکارانہ واپسی
پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا عمل جاری ہے۔ روزانہ خیبر پختونخوا سے افغان خاندان واپس جا رہے ہیں۔ افغان کمشنریٹ سے وابستہ حکام کے مطابق گزشتہ سال غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف کارروائی کے بعد رضا کارانہ واپسی کے عمل میں تیزی دیکھنے میں آنے تھی۔ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ رجسٹرڈ افغان بھی واپس جانے لگے تھے۔

رضاکارانہ واپسی سست روی کا شکار کیوں؟
پاکستان گزشتہ سال نے غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کو واپس جانے کا حکم دیا تھا، جبکہ اس حوالے سے کارروائی بھی شروع کی گئی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ تاہم حکام کے مطابق پاکستان سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ جبکہ غیر قانونی مقیم باشندوں کے خلاف کارروائیاں بھی کم ہو گئی ہیں۔ جس کے بعد اب ان کی رضاکارانہ واپسی میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

افغان کمشنریٹ حکام کے مطابق رضاراکارنہ واپسی میں کمی ضرور آئی ہے، تاہم واپسی کا عمل جاری ہے، واپس جانے والوں میں زیادہ تعداد یو این ایچ سی سے رجسٹرڈ مہاجرین کی ہے جنہیں واپس جانے پر پیسے دے جاتے ہیں۔
اب تک کتنے افغان باشندے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں؟
محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا عمل جاری ہے۔ سب سے زیادہ افغان پاک افغان سرحد طور خم کے ذریعے واپس گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ کی 17 مارچ سے 17 مارچ 2025 تک کی رپورٹ کے مطابق 4 لاکھ 69 ہزار 470 افغان باشندے دو سالوں میں واپس افغانستان گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان 2 سالوں رضاکارانہ واپسی کے علاوہ غیر قانونی مقیم افغانوں کو بے دخل بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ اکثر رضاکارانہ طور واپس گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ 4 لاکھ 60 ہزار افراد طورخم بارڈر کے راستے واپس جا چکے ہیں۔ محکمہ داخلہ کے مطابق ان 2 برسوں میں 8 ہزار 6 سو سے زائد افغان باشندوں کو ملک سے زبردستی بے دخل بھی کیا گیا۔

ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد کیا کاروائی ہو گی؟
پاکستانی حکام نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ افغان باشندے رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملک چلے جائیں، یکم اپریل کے بعد پاکستان کی جانب سے جاری کردہ افغان سیٹزن کارڈ رکھنے والوں کو قانونی طور پر رہنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت واپس نہ جانے والوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے لیے باقاعدہ پوائنٹس کو دوبارہ فعال کرکے کریک ڈاون شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔ تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ کارروائی سے پہلے زیادہ سے زیادہ افغان رضاکارانہ طور پر واپس چلے جائیں۔
کیا افغان باشندوں کو نکلنا آسان ہے؟
حکومتی اعلان کے بعد افغان باشندے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں حالات انتہائی خراب ہیں، ان کا واپس جانا خودکشی کرنے کے برابر ہے۔ دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کریک ڈاون اور زبردستی واپسی سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی عارف حیات کے مطابق افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد کی تعداد 8 لاکھ تک ہے، انہیں زبردستی نکلنا آسان نہیں۔
ان کے مطابق افغان حکومت کو آگے بڑھ کر خصوصی سہولت اور مراعات کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ واپس جانے والوں کو ریلیف مل سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں