سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو عام شہریوں کے ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے اس کیس پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
سماعت کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ سزا یا رہائی کا حتمی فیصلہ اپیلوں کے فیصلوں سے مشروط ہو گا۔
آئینی بینچ نے کیس میں آج کی سماعت کا آرڈر جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
“سزا پانے والے افراد اپیل کا حق رکھتے ہیں”
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سویلینز عدالتوں میں ملزمان کو منتقل کرنے کیلئے سزائیں سنانے کی اجازت دی جائے، سزا سنانے کے بعد ملزمان کو دیگر عدالتوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے، کہا 103 میں 20 افراد رہا ہوئے اور دو مزید شامل ہوئے تھے، اس وقت فوج کی زیر حراست 85 افراد ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی جن ملزمان کو رعایت مل سکتی انھیں رہا کر دیں، جن ملزمان کا ٹرائل مکمل ہوچکا انہیں فوجداری عدالتوں میں منتقل کریں، سزا پانے والے افراد فوجداری عدالتوں میں اپیل کا حق رکھتے ہیں، فوجی عدالتوں کے حتمی فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا اپیلوں سے مشروط ہوں گے۔
دوران سماعت عدالت نے چھبیسویں آئینی ترمیم کا کیس جنوری کے دوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دے دیا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ جنوری کے پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو26ویں ترمیم کا کیس دوسرے ہفتے سنیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ فوج میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ اسے علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔ آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔ آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کیلئے گیا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئنی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔