انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ ترین تشخیصی رپورٹ میں پاکستان کی معیشت پر ’ایلیٹ کیپچر‘ کے گہرے اور دیرینہ اثرات کو بے نقاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک کے بااثر طبقات خصوصاً شوگر، ریئل اسٹیٹ، زراعت اور توانائی کے شعبوں کے مفادات اصلاحات کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ’پاکستان گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ‘ کے عنوان سے جاری تکنیکی رپورٹ کے مطابق شوگر انڈسٹری اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح معاشی طاقت رکھنے والے گروہ اور ریاستی ریگولیٹر مل کر عوامی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شوگر سیکٹر کے مالکان کو دہائیوں تک حکومتی سبسڈیز، ترجیحی پالیسیوں اور ریگولیٹری کمزوریوں کا فائدہ ملتا رہا جس کی بنیادی وجہ سیاسی قیادت اور صنعت سے وابستہ بڑے کاروباری خاندانوں کا گہرا تعلق ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق کئی شوگر مل مالکان خود حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جنہوں نے گنے کی سفارش کردہ قیمتیں مقرر کرانے اور درآمدی و برآمدی ڈیوٹیز میں نرمی جیسے اقدامات کو اپنے حق میں استعمال کیا۔
رپورٹ میں 2018–19 کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس دور میں حکومت نے چینی کی بڑی مقدار کو سبسڈی دے کر برآمد کرنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں ملک میں قلت پیدا ہوئی اور مقامی صارفین کو قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا۔
ریئل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں میں بھی مراعات کا سلسلہ جاری
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر طویل عرصے سے ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ زراعت، توانائی اور مینوفیکچرنگ کو بھی خصوصی رعایتیں حاصل رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق زرعی آمدنی کو طویل عرصے تک ٹیکس سے استثنیٰ دیا جاتا رہا۔
آئی ایم ایف نے نشاندہی کی کہ ان مراعات کے باعث قومی خزانے کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کے اپنے تخمینے کے مطابق مالی سال 2023 میں ٹیکس چھوٹ کا بوجھ مجموعی ملکی پیداوار کے 4.61 فیصد کے برابر تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہ امتیازی رعایتیں پاکستان کے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو اور مالیاتی بحرانوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا قانون کے غیر مساوی اطلاق اور پالیسیوں کا طاقتور حلقوں کے زیرِ اثر ہونا معاشی فیصلوں کو مسخ کرتا ہے اور نجی و سرکاری شعبے کے مواقع محدود کرتا ہے۔
تاریخی پس منظر اور ایلیٹ کے مضبوط ہوتے اثرات
آئی ایم ایف نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ تاریخی طور پر بڑے زمیندار طبقات کے اثر و رسوخ میں رہا ہے جس کی بنیاد نوآبادیاتی دور کی زمین داری پالیسیوں نے رکھی تھی۔
آزادی کے بعد بھی یہ ڈھانچہ برقرار رہا جس سے ایلیٹ کی گرفت مزید سخت ہوتی گئی۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی سال 2020 کی اس تحقیق کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر کو حاصل ’ایلیٹ مراعات‘ کا حجم 4.7 ارب ڈالر تک پہنچتا ہے۔
اصلاحات کی کامیابی خطرے میں
آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ اگر ان مراعاتی ڈھانچوں کو ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کی معاشی استحکام کی کوششیں بار بار کمزور پڑتی رہیں گی کیونکہ طاقتور مفاداتی گروہ ملکی سیاسی و معاشی پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے متاثر کرتے رہیں گے۔












