پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا گیا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق سینیٹ کا اجلاس آج صبح 11 بج کر 30 منٹ پر منعقد ہوگا۔
جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق اجلاس میں قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم پر رپورٹ پیش کی جائے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک، جو حکمران مسلم لیگ (ن) کے اہم اتحادی ہیں، 27ویں آئینی ترمیم پر کمیٹی کی رپورٹ پیش کریں گے۔
بعد ازاں وفاقی وزیر قانون و انسانی حقوق اعظم نذیر تارڑ ایوانِ بالا میں 27ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کریں گے۔
امید کی جا رہی ہے کہ سینیٹ پیر کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دے گا، جس کے بعد یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
مزید برآں، انوشہ رحمان پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کریں گی، جبکہ اسلام آباد میں میٹرو بس منصوبے کی تعمیر سے متعلق بل سینیٹر سرمد علی پیش کریں گے۔
جمعیت علما اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ پاکستان سائیکالوجیکل کونسل کے قیام سے متعلق بل پیش کریں گے۔
سینیٹر محمد عبدالقادر پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کریں گے، جبکہ سینیٹر شیری رحمان کتابوں پر پلاسٹک کور کے استعمال پر پابندی سے متعلق بل پیش کریں گی۔
اسی اجلاس میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی پیش کیا جائے گا۔
اس سے قبل پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف نے گزشتہ روز 27ویں آئینی ترمیم پر غور کے لیے مشترکہ اجلاس منعقد کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پر بات چیت ہوئی، تاہم اس معاملے پر مزید مشاورت کے لیے وقت مانگا گیا۔
اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنے کی تجویز پر بھی مشاورت مؤخر کر دی گئی، اور حکومت نے کل تک اپنی حتمی پوزیشن دینے کی درخواست کی۔
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کی دیگر تمام شقوں پر اتفاقِ رائے ہو چکا ہے اور بات چیت آخری مراحل میں ہے۔
دوسری جانب، اپوزیشن اتحاد تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے رہنماؤں نے 27ویں آئینی ترمیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین پر حملہ اور عدلیہ کی آزادی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔
اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کے اصول کی خلاف ورزی ہے اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے لائی جا رہی ہے۔
’جس دن یہ ترمیم منظور ہوئی، وہ 1973 کے آئین کے تدفین کا دن ہوگا۔‘
انہوں نے اس ترمیم کو ’شخصی قانون سازی‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ’یومِ سیاہ‘ منانے کا اعلان کیا اور عوام، میڈیا، تاجروں، کسانوں اور وکلا سے اپیل کی کہ وہ اس مجوزہ قانون کے خلاف متحد ہوں۔
علامہ راجا ناصر عباس نے مخصوص عہدوں اور رینکس کو استثنیٰ دینے کی تجویز پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں ترمیم ایسے افراد کو قانون سے بالاتر کر دے گی جو قتل، ظلم یا کرپشن جیسے جرائم کے باوجود احتساب سے بچ جائیں گے۔
’جب طاقت بے لگام ہو جاتی ہے تو وہ آمریت میں بدل جاتی ہے، جو اختلاف کی ہر آواز، حتیٰ کہ ایک بچے کی آواز بھی، دبانے لگتی ہے۔‘
’1973 کا آئین اسی دن مر جائے گا جس دن یہ ترمیم منظور کی گئی۔‘












