پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں شروع، بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی، خواجہ آصف

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں شروع ہوگیا ہے۔ استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے دو رُکنی وفد شریک ہے، جبکہ افغانستان کے وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب کررہے ہیں۔

ادہر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سیالکوٹ میں اسپتال کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو کھلی جنگ ہوگی۔ میری خوش فہمی نہ ہو لیکن مجھے ان میں امن نظر آیا تھ

یاد رہے کہ قبل ازیں اتوار 19 اکتوبر کو مذاکرات کا کامیاب دور مکمل ہوا تھا، اس موقع پر ہی مذاکرات کا آئندہ دور استنبول میں ہونا قرار پایا تھا۔ پہلے دور کے مذاکرات میں افغانستان اور پاکستان نے قطر اور ترکیہ کے ثالثی کردار میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اپنی متنازع سرحد پر ہونے والی خونریز جھڑپوں کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
دونوں پڑوسی ممالک نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں فالو اپ اجلاس منعقد کیے جائیں گے تاکہ امن معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
قطر کی ثالثی اور الجزیرہ کا حوالہ
پہلے دور کے حوالے سے قطر کے وزارت خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان اور پاکستان نے جنگ بندی اور دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے میکانزم کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔
دوحہ میں مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے یہ بھی طے کیا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں فالو اپ اجلاس منعقد کریں گے تاکہ جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی اور تصدیق ممکن بنائی جا سکے۔
وزارت دفاع کی ملاقات اور معاہدے کی تفصیلات
افغانستان کے وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے ملاقات کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
پہلے دور کے معاہدے کی میڈیا ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ مذاکرات کا مقصد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے کراس بارڈر دہشتگرد حملوں کو فوری طور پر روکنا اور سرحدی علاقے میں امن اور استحکام قائم کرنا ہے۔
پچھلے جھڑپوں اور فضائی کارروائیوں کا پس منظر
یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جھڑپیں اور پاکستانی فضائی حملے اس وقت شروع ہوئے تھے جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان باغیوں کو کنٹرول کرے جو پاکستان میں حملے بڑھا رہے تھے۔
پاک افغان مذاکرات میں طے پانے والے نکات کا عکس
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں سے کارروائیاں کر رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں