انٹرنیٹ پر وفاقی وزرا، حکومتی شخصیات اور اعلیٰ سرکاری افسران سمیت ہزاروں پاکستانیوں کا تمام ڈیٹا انٹرنیٹ پر فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
انٹرنیٹ پر موبائل سم مالک کا ایڈریس، کال ریکارڈ، شناختی کارڈ کی کاپی، بیرون ملک سفرکی تفصیلات سب کچھ فروخت کیا جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی وزرا، اہم حکومتی شخصیات اور اعلی سرکاری افسران سمیت تمام پاکستانیوں کا ڈیٹا انٹرنیٹ پر فروخت ہورہا ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ، سے لے کر ترجمان پی ٹی اے تک ہرشخص کا ڈیٹا گوگل پر بیچے جانے کا انکشاف ہوا اور تمام ہی دستاویزات انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔
نیوزکی جانب سے ایک سال پہلے 12 اکتوبر کو توجہ دلانے کے باوجود ڈیٹا فروخت ہونے کا عمل جاری ہے جبکہ پی ٹی اے، این سی سی آئی اے سمیت تمام ادارے ڈیٹا کی فروخت پر خاموش ہیں۔
پی ٹی اے کی جانب سے خبرپر موقف دیا گیا تھا کہ ایسی سائٹس بند کردی گئی ہیں تاہم ایک سال بعد بھی شہریوں کا ڈیٹا بیچے جانے کا عمل جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر درجنوں ویب سائٹس شہریوں کا ڈیٹا معمولی پیسوں عوض بیچنے میں مصروف ہیں، موبائل کی لوکیشن500 روپے، موبائل ڈیٹا ریکارڈ تفصیل2000 روپے، غیرملکی سفرکی تفصیل 5 ہزارمیں دستیاب ہے۔
ذرائع کے مطابق جرائم پیشہ عناصرکسی بھی شہری کا ڈیٹا چند پیسوں میں خرید کر شہریوں کو مصیبت میں پھنسا سکتے ہیں۔
عوام نے سوال کیا ہے کہ ڈیٹا کیسے لیک ہوا، کون لگاتار ڈیٹا لیک کررہا ہے، ایک سال پہلے ایکسپریس نیوزاس خبر پر ایکشن کیوں نہیں ہوا۔
وزیر داخلہ کا نوٹس، تحقیقاتی کمیٹی تشکیل
دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نےنیوز کی خبر کا فوری نوٹس لیتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو معاملے کی تحقیقات اور اقدامات کی ہدایت کردی۔
اعلامیے کے مطابق وزیر داخلہ کی ہدایت پر این سی سی آئی اے نے کام شروع کردیا اور خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی جو ڈیٹا لیکج کے معاملے کی ہر پہلو سے تحقیقات کرے گی۔
ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق ڈیٹا لیکج میں ملوث عناصر کا تعین کرکے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تحقیقاتی ٹیم 14 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔