وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ پر 8 کمیٹیاں قائم کر دیں

وفاقی حکومت نے11 ویں این ایف سی ایوارڈ کیلیے اہم امور پر 8 مختلف کمیٹیاں قائم کر دیں، اس پیش رفت کی وجہ ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا دعویٰ ہے کہ قابل تقسیم پول میں 57.5 فیصد کی آئینی حد کے برعکس صوبوں کو گزشتہ مالی سال پٹرولیم لیوی اور فاضل کیش کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد 45.8 فیصد ملے کیونکہ پٹرولیم لیوی قابل تقسیم پول کا حصہ نہیں۔

ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ نے وزیر خزانہ پنجاب کی قیادت میں ایک ورکنگ گروپ صوبوں کے دائرہ اختیار میں آنے والے امور پر وفاق کے اخراجات کی شیئرنگ کی سفارشات، ایک گروپ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے تناسب کے تعین کیلیے وزیر خزانہ بلوچستان کی سربراہی میں ایک ورکنگ گروپ صوبوں میں وسائل کی تقسیم، ایک اور ورکنگ گروپ قومی قرضوں کی ساخت اور استعمال پر بھی قائم کیا ہے۔

ایک ورکنگ گروپ وزیر خزانہ پختونخوا کی سربراہی میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں بہتری کیلیے اقدامات تجویز کرنے،ایک ورکنگ وزیر خزانہ سندھ کی سربراہی میں وسائل کی صوبوں کو براہ راست منتقلی ،7 واں ورکنگ گروپ سابق فاٹا کے انضمام اوراین ایف سی میں شیئر پر سفارشات، وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی سربراہی میں ایک ورکنگ گروپ قابل تقسیم پول کی ساخت اور بعض ٹیکسوں کو پول میں شامل یا نکالنے کی تجاویز کیلئے ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کسٹم ڈیوٹی کو قابل تقسیم پول سے نکالنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق مشیر خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے صوبہ کی حدود اورآبادی اضافے کی بنیاد پر شیئر میں4 فیصد تک اضافے پر زور دیا۔

انہوں نے توانائی سمیت غلط پالیسی چوائسز کو وفاقی بجٹ خسارے کی وجہ قرار دیا جن کے باعث گیس و پاور سیکٹر میں50 کھرب روپے کے گردشی قرضے اور چینی پاور پلانٹس کو51 کھرب روپے سے زائد ادائیگیاں کی گئیں۔

ذرائع کے مطابق این ایف سی اجلاس میں سندھ نے اخراجات پر کسی گروپ کی تشکیل کو این ایف سی کے مینڈیٹ کے خلاف قرار دیا تھا، اس لئے سندھ حکومت اخراجات کی شیئرنگ پر قائم گروپ کی قانونی وضاؓحت مانگ سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں