چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد محمود لنگڑیال نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو واضح طور پر آگاہ کیا ہے کہ حکومت 2 لاکھ روپے سے زائد فی ٹرانزیکشن نقد فروخت پر اخراجات کی 50 فیصد عدم منظوری سے متعلق نئے قانون کو واپس نہیں لے گی۔
راشد لنگڑیال نے بتایا کہ یہ قانون قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سے منظور ہو چکا ہے اور اب اسے صرف اگلے مالیاتی بل (2026-27) میں ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ بھی سمجھ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی اس قانون کی منظوری دی ہے۔ یہ قانون ایف بی آر نے نہیں بلکہ قانون سازوں نے منظور کیا ہے۔‘
سینیٹ کمیٹی کے ارکان اس بات پر حیران ہوئے کہ یہ قانون سینیٹ کی کمیٹی سے منظور ہو چکا ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے اعتراض اٹھایا کہ یہ قانون کاروبار دشمن ہے، اور اس کے منفی اثرات کے بارے میں آپ کسی بھی تاجر سے پوچھ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی کاروباری شخص یا دکان دار ایک وقت میں دو لاکھ روپے سے زیادہ کی نقدی سے فروخت کرے گا، تو وہ اس فروخت سے جڑے آدھے اخراجات ٹیکس میں نہیں کاٹ سکے گا۔
یعنی اگر کسی نے تین لاکھ روپے کی نقد فروخت کی اور اس پر پچاس ہزار روپے کا خرچ ہوا، تو ایف بی آر صرف پچیس ہزار روپے کا خرچ ہی تسلیم کرے گا۔ باقی خرچ ٹیکس میں نہیں مانا جائے گا، جس سے تاجر کا ٹیکس زیادہ بنے گا۔
اب کاروباری افراد اگر بڑی نقد رقم سے فروخت کریں گے تو وہ اپنے پورے اخراجات حکومت کو دکھا کر ٹیکس میں رعایت نہیں لے سکیں گے۔ حکومت چاہتی ہے کہ لوگ نقدی کے بجائے بینک یا ڈیجیٹل طریقے سے پیسے کا لین دین کریں تاکہ ٹیکس چوری کم ہو اور معیشت شفاف بنے۔
کاروباری طبقہ اس نئے ٹیکس قانون سے مشکلات کا شکار ہے، جو بڑی نقد فروخت پر اخراجات کو محدود کرتا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نقدی سے پاک معیشت کی جانب بڑھ رہے ہیں، اگر کوئی شخص کاروباری فروخت کر رہا ہے تو اسے ایک مخصوص حد سے زائد نقد رقم میں نہیں کرنا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ان کی جماعت اس قانون کے خلاف ہے کیونکہ یہ ایک ظالمانہ قانون ہے۔ یہ نیا قانون فنانس ایکٹ 2025 کے ذریعے متعارف کروایا گیا ہے اور اسے یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔
یہ شق انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 24 کے تحت شامل کی گئی ہے اور صرف ”آمدن از کاروبار“ کے زمرے پر لاگو ہوتی ہے، جسے آرڈیننس کے سیکشن 18 میں بیان کیا گیا ہے۔