امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ویزا یا مستقل رہائش کی درخواستوں پر فیصلہ کرتے وقت درخواست گزاروں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کا جائزہ لے گا، اور اگر کسی کی پوسٹس کو ٹرمپ انتظامیہ کی نظر میں ”یہود مخالف“ سمجھا گیا تو اس کی درخواست مسترد کی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ انہیں ڈی پورٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ترجمان ٹریشیا میک لافلن نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ سیکریٹری کرسٹی نوم نے واضح کیا ہے کہ جو افراد امریکا آ کر پہلi آئینی ترمیم کے تحت آزادی اظہار کا سہارا لے کر یہود مخالف شدت پسندی یا دہشت گردی کی حمایت کریں گے، انہیں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔
امریکی شہریت اور امیگریشن خدمات (USCIS) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر کی گئی ایسی کسی سرگرمی کو ویزا یا گرین کارڈ کی منظوری میں منفی عنصر تصور کریں گے جس میں درخواست گزار یہود مخالف دہشت گردی، ایسی تنظیموں کی حمایت، یا دیگر یہود مخالف سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہو۔
یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہو گئی ہے اور اس کا اطلاق طالبعلموں کے ویزے، مستقل رہائش یعنی گرین کارڈ کی درخواستوں اور دیگر امیگریشن فوائد پر ہوگا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ایسی سوشل میڈیا سرگرمیاں جن میں حماس، حزب اللہ یا یمن کے حوثیوں جیسی تنظیموں — جنہیں امریکا نے دہشت گرد قرار دیا ہے — کی حمایت شامل ہو، ویزا کے حق میں منفی اثر ڈالیں گی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اب تک 300 سے زائد افراد کے ویزے منسوخ کیے ہیں، اور یہ عمل روزانہ جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کو امریکیوں جیسے حقوق حاصل نہیں اور ویزا دینے یا نہ دینے کا فیصلہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے، نہ کہ عدالتوں کا۔
کئی ایسے افراد جن کے ویزے منسوخ کیے گئے، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کبھی بھی یہود مخالف نہیں رہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ صرف احتجاجی مقامات پر موجود تھے، جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔
اس حوالے سے سب سے نمایاں معاملہ محمود خلیل کا ہے، جو کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں حراست میں لے کر لوزیانا منتقل کیا گیا جہاں سے ان کی ملک بدری کی کارروائی شروع کی گئی، حالانکہ وہ پہلے سے امریکا کے مستقل رہائشی تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ان مظاہروں کے دوران یہود مخالف سرگرمیوں پر مناسب ردعمل نہ دینے پر کئی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی وفاقی فنڈنگ بھی منسوخ کر دی ہے۔
نئی پالیسی کے تحت اب امریکا آنے یا وہاں قیام کے خواہشمند افراد کو سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کے نتائج کا پہلے سے اندازہ لگانا ہوگا، کیونکہ ایک پوسٹ بھی مستقبل کے دروازے بند کر سکتی ہے