26ویں آئینی ترمیم کے تحت پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے پہلا ریلیف مانگ لیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم کے تحت پہلا ریلیف مانگ لیا۔ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور نامور قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت اب عدالت یہ مقدمہ نہیں سن سکتی بلکہ یہ آئینی بینچ کو منتقل ہوگا۔

اس سے قبل 8 ستمبر کو جب سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب نیب قانون میں کی گئی ترامیم بحال کیں تو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بریت کے لیے بھی سب سے پہلی درخواست عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
پی ڈی ایم حکومت نے نیب قانون میں ترمیم کی تھی کہ نیب کابینہ میں لیے گئے فیصلوں پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ اس قانون سازی اور نیب قانون میں دیگر ترامیم کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو ان ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا تھا جبکہ گزشتہ ماہ نظرثانی اپیل میں سپریم کورٹ نے یہ ترامیم بحال کردیں۔ گوکہ عمران خان نظرثانی اپیل میں پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی جانے والی ترامیم کے مخالف نظر آئے اور ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم اپنی کرپشن بچانے کے لیے کی گئی ہیں۔ لیکن جونہی عدالت نے یہ ترامیم بحال کیں تو عمران خان نے سب سے پہلے ان ترامیم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بریت کی درخواست دائر کردی۔
یہی کچھ آج پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے ہوا جب عمران خان کے وکلا حامد خان ایڈووکیٹ اور بیرسٹر علی ظفر نے اس مقدمے کے میرٹس پر دلائل دینے سے انکار کردیا۔
حامد خان نے تو صاف لفظوں میں چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ متعصب ہیں اس لیے میں دلائل نہیں دے سکتا لیکن بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ عدالت مقدمہ نہیں سن سکتی بلکہ یہ اب آئینی بینچ کو منتقل ہوگا۔
بعد ازاں حامد خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک تو چیف جسٹس کے تعصب پر دلائل دینے سے انکار کیا اور اب یہ عدالت اس مقدمے کو سن بھی نہیں سکتی لیکن ہم اس وقت تک آئینی بینچ کو نہیں مانیں گے جب تک چیف جسٹس اس کا سربراہ اور 4 سینیئر ترین ججز اس کے رکن نہ ہوں۔ اس سے قبل انہوں نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم اس آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں اور وکلا اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں