صیہونی افواج کے ہاتھوں ماری جانے والی 10 سالہ راشا کی وصیت پر من و عن عمل کیوں نہ ہوسکا؟

غزہ کی 10 سالہ راشا العریر کو یہ تو اندازہ ہوچکا تھا کہ صیہونی بربریت اس کے علاقے میں بسے افراد کی جس طرح جانیں لے رہی ہے بالکل اسی طرح وہ بھی جلد ہی بم اگلتے کسی عفریت کا نشانہ بن جائے گی لیکن شاید اسے ایک جھوٹی آس ضرور تھی کہ اس سے ایک سال بڑے بھائی احمد کو کچھ نہیں ہوگا تب ہی اس نے اپنے قتل کے بعد اپنی ایک عزیز ترین شئے احمد کو دینے کی وصیت کردی۔ راشا نے ایک خط میں یہ بھی بتادیا تھا کہ اس کے کپڑے و دیگر اشیا کن کو دی جائیں۔

راشا کی وصیت تو اس کے رشتے داروں کو مل گئی لیکن اس پر پوری طرح عمل کرنا ان کے بس میں نہیں تھا کیوں کہ وہ مالا کا ڈبہ جو راشا نے احمد کو دینے کی ہدایت کی تھی گھر کے ملبے تلے سے نکل تو آیا لیکن اسے احمد کو دینا اب ممکن نہیں رہا تھا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی جہازوں کی بمباری کا نشانہ جب راشا کا گھر بھی بنا تو اس کے ایک حصے میں اس کے ساتھ اس کا 11 سالہ بھائی احمد بھی موجود تھا اور دونوں بھائی بہن نے ایک ساتھ ہی جام شہادت نوش کیا تھا اور دونوں کے خون میں لت پت مردہ جسم اسرائیل کی ایک اور فتح کا شادیانہ بجا رہے تھے۔

پھر ریسکیو کے عملے کو ملبے تلے راشا کے ہاتھ کا لکھا وہ خط بھی مل گیا جس میں اس نے اپنی چیزوں کو بھائی احمد سمیت دیگر میں تقسیم کرنے کی وصیت کی تھی۔

ریسکیو ٹیموں نے راشا کا نوٹ اس کے گھر کے ملبے کے درمیان سے دریافت کیا۔ اس میں اس نے بڑی تفصیل اور احتیاط سے اپنی آخری خواہشات کا خاکہ پیش کیا۔
راشا نے خط میں بڑی باریک بینی سے اپنے ’اثاثوں‘ کا حساب کتاب لگایا تھا اور دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ اس کی ہدایت پر من و عن عمل کیا جائے۔ معصوم بچی کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے وہ اسکول میں کسی امتحانی سوال میں دیکھا کرتی ہوگی۔ اس نے ابتدا میں لکھا ’میری وصیت: میرا سامان مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم کیا جائے‘۔

پھر راشا نے لکھا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میرا سامان میرے کزن رحف مروان العریر، سارہ الزہرانہ، جودی رجب، لنا رجب اور بتول العریر کو دیا جائے‘۔
راشا نے آگے لکھا ’میں چاہتی ہوں کہ میرے مالا کے ڈبے احمد اور رحف مروان العریر کے پاس جائیں، میرا 50 شیکل کا ماہانہ الاؤنس رحف اور احمد میں برابر تقسیم کیا جائے یعنی 25 شیکل فی کس‘۔

اس نے آگے کہا کہ اس کی کہانیوں کی کتابیں اور نوٹ بکس رحف کو اور اس کے کھلونے بتول کو دیے جائیں۔

پھر اچانک راشا کے دل میں بھائی احمد کی محبت امڈ آئی اور اس نے گھر والوں سے اسے کبھی نہ ڈانٹنے کی درخواست کی۔ اس نے لکھا ’براہ مہربانی، میرے بھائی احمد پر چیخا مت کریں‘۔

راشا نے اپنے خط میں آگے اپنی غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ آپ میرے لیے نہیں روئیں گے کیوں کہ آپ کے آنسو دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے‘۔

راشا کی وہ وصیت اس کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی اور ایک بار پھر وہی ہوا یعنی اس بچی کی وصیت پر من و عن عمل نہیں ہوا۔ پڑھنے والے اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پاسکے اور ننھی راشا کی وصیت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں