افریقہ بھر میں نئی قِسم کا ایم پاکس وائرس پھیلنے کے بعد عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گزشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر اسے عالمگیر صحت کے لیے ہنگامی صورتحال قرار دے دیا ہے۔
ایم پاکس سے لوگ ویسے ہی خوف کا شکار ہیں جس کا سامنا انہیں کورونا اور ایچ آئی وی کی وبا کے ابتدائی عرصے میں ہوا تھا۔ ایم پاکس وائرس کیا ہے، یہ کہاں سے آیا اور دنیا اس خطرے سے کیسے نمٹ سکتی ہے، ان سوالات پر ڈبلیو ایچ او نے آگاہی فراہم کی ہے۔
ایم پاکس کیا ہے؟
کچھ عرصہ پہلے تک اس بیماری کو منکی پاکس کہا جاتا تھا۔ یہ وائرس سے پھیلنے والا مرض ہے جو زیادہ تر لوگوں کے باہمی رابطوں اور کبھی کبھار اس کے جرثوموں سے آلودہ چیزوں کو چھونے سے لاحق ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق، اس کا آغاز سنہ 1970 میں جمہوریہ کانگو سے ہوا تھا لیکن تب اس کی روک تھام پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔
ادارے میں عالمگیر صحت سے متعلق ضابطوں کی ہنگامی کمیٹی کے سربراہ ڈیمی اوگونیا نے کہا ہے کہ اب کے اس پر قابو پانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے۔
قبل ازیں اس مرض کی وبا سنہ 2022 میں بھی پھیلی تھی جس نے ابتدا میں وسطی و مغربی افریقہ کو اپنی لپیٹ میں لیا اور بعدازاں دنیا کے دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے۔ اس موقع پر بھی ڈبلیو ایچ او نے اس وبا کو عالمگیر صحت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
نومبر 2022 میں ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کے ماہرین صحت سے مشاورت کے بعد اس بیماری کا نام تبدیل کر کے ایم پاکس رکھ دیا۔
بیماری کی علامات
جلد پر سرخ نشانات نمودار ہونا اس بیماری کی خاص علامت ہیں جس کے ساتھ یا کچھ دیر کے بعد مریض کو بخار، سر، پٹھوں اور کمر میں درد، کمزوری اور جسم کے مختلف حصوں میں پائی جانے والی لمف نوڈ میں سوجن کی شکایت ہوتی ہے۔
جلد پر پڑنے والے سرخ نشانات چھالوں سے مشابہ ہوتے ہیں جو منہ، ہتھیلیوں، پاؤں کے تلووں، کمر، جنسی اعضا یا مقعد کے قریب جگہ، منہ، گلے یا آنکھوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ان چھالوں کی تعداد ایک سے لے کر ہزاروں تک ہو سکتی ہے۔
جب تک یہ یہ چھالے ختم نہ ہو جائیں اور جسم پر نئی جلد نمودار نہ ہو اس وقت تک مریض کو صحت یاب قرار نہیں دیا جاتا۔ عام طور پر اس میں دو سے چار ہفتے کا وقت لگتا ہے۔ ایک مرتبہ ایم پاکس کا شکار ہونے والے فرد کو یہ بیماری دوبارہ بھی لاحق ہو سکتی ہے۔
جن لوگوں میں اس مرض کی شدید علامات ظاہر ہوں انہیں ہسپتال داخل کرانے، نگہداشت اور اینٹی وائرل ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایم پاکس کیسے پھیلتا ہے؟
انسان سے انسان کو منتقلی: زیادہ تر لوگوں میں یہ مرض ایک دوسرے کو چھونے، جنسی عمل اور منہ کو ایک دوسرے کے قریب لا کر بات کرنے سے منتقل ہوتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ مختلف طرح کے ماحول اور حالات میں وباؤں کے دوران یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کچھ دیر کے لیے کپڑوں، بستر، تولیوں، عام استعمال کی اشیا، الیکٹرانکس کے سامان اور مریض کی چھوئی سطح پر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی صحت مند فرد وائرس سے آلودہ ان چیزوں کو چھو لے تو ہاتھ دھونے سے پہلے آنکھوں، ناک یا منہ کو ہاتھ سے چھونے کے نتیجے میں ایم پاکس کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ وائرس حاملہ ماؤں سے ان کے پیٹ میں پرورش پاتے بچوں کو بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بچے کو پیدائش کے دوران یا اس کے بعد متاثرہ ماں یا کسی اور فرد کے چھونے سے بھی لاحق ہو جاتا ہے۔
انسان سے جانوروں کو منتقلی: چونکہ جانوروں کی بہت سی اقسام کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ وائرس پھیلاتی ہیں لیکن ایم پاکس وائرس انسان سے جانوروں کو بھی منتقل ہو سکتا ہے۔
ماہرین صحت نے ہدایت کی ہے کہ جن لوگوں کو یہ بیماری لاحق ہو چکی ہو وہ جانوروں بشمول بلیوں، کتوں، خرگوش، ہیمسٹر، گربل، مویشیوں اور جنگلی جانورں کے قریب جانے سے پرہیز کریں۔
جانوروں سے انسانوں کو منتقلی: بندر، گلہری اور ایسے دیگر جانور بھی انسانوں میں یہ وائرس منتقل کرتے ہیں۔ اگر ان جانوروں کے جسم میں ایم پاکس موجود ہو تو ان کے کاٹنے یا پنجے مارنے سے انسانوں کو یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ متاثرہ جانور کے شکار، جانور کی کھال اتارنے، اسے پھانسنے یا اس کے گوشت کو پکانے اور کھانے کے نتیجے میں بھی یہ وائرس انسانوں کو منتقل ہو سکتا ہے۔
ایم پاکس کتنا مہلک ہے؟
متاثرہ لوگوں کی 0.1 فیصد سے 10 فیصد تک تعداد کے لیے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ ‘ڈبلیو ایچ او’ نے کہا ہے کہ طبی خدمات تک رسائی، حفاظتی ٹیکوں کی صورتحال، کسی فرد میں ایچ آئی وی کی تشخیص نہ ہونے یا کسی میں یہ مرض شدت اختیار کر جانے اور ایسے متعدد عوامل کی بنا پر مختلف ماحول اور حالات میں ایم پاکس سے شرح اموات مختلف ہو سکتی ہیں۔
عام طور پر مناسب طبی نگہداشت اور درد یا بخار کی دوا لینے کے نتیجے میں ہی ایم پاکس کی علامات چند ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہیں۔ تاہم بعض لوگوں میں یہ بیماری شدید اور پیچیدہ ہو کر موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
نومولود، چھوٹے بچے، حاملہ خواتین اور ایچ آئی وی جیسے امراض کی وجہ سے قوت مدافعت کی کمی کا شکار لوگوں کو ایم پاکس سے لاحق خطرات دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
کیا ایم پاکس کی ویکسین موجود ہے؟
جی ہاں۔ ‘ڈبلیو ایچ او’ نے ایم پاکس کے خلاف کئی طرح کی ویکسین تجویز کی ہیں۔ تاہم، دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو ویکسین لگانے کی سفارش نہیں کی گئی۔
سالہا سال کی تحقیق کے بعد سائنس دانوں نے ایسی محفوظ ویکسین تیار کر لی ہیں جن کے ذریعے چیچک کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ متعدد ممالک میں ایم پاکس کے خلاف بھی چند ایسی ہی ویکسین استعمال کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
فی الوقت ڈبلیو ایچ او نے ایم پاکس کے خلاف ‘ایم وی اے۔بی این’ یا ‘ایل سی 16’ ویکسین اور دیگر کی عدم موجودگی میں ‘اے سی اے ایم 2000’ ویکسین استعمال کرنے کو کہا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو ایم پاکس لاحق ہونے کا خدشہ دوسروں سے زیادہ ہو انہیں ویکسین دی جانا ضروری ہے۔ سفر پر جانے والے لوگ بھی اس بیماری سے لاحق ممکنہ خطرات کا اندازہ کر کے ویکسین لگوا سکتے ہیں۔
ایم پاکس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟
سطحوں یا چیزوں کو صاف اور جراثیم سے پاک رکھنا، انہیں چھونے کے بعد ہاتھ دھونا اس بیماری سے تحفظ دے سکتا ہے۔
جانوروں اور بالخصوص بیمار یا مردہ جانوروں کو چھونے سے پرہیز کر کے بھی اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے۔
جن ممالک میں جانوروں میں یہ وائرس پایا گیا ہو وہاں جانوروں کا گوشت کھانے سے پہلے اسے اچھی طرح پکانا ضروری ہے