ڈرامہ برزخ؛ ایک شور سا برپا کیوں ہے؟

’’برزخ پاکستان میں بے حیائی اور بدکرداری کو فروغ دے رہا ہے۔‘‘
’’یہ ڈرامہ اسلامی معاشرے کے خلاف اور ملکی اقدار کے منافی ہے۔‘‘
’’ایسا لگتا ہے کہ ڈائریکٹر نے سب سے بڑے گناہوں کی فہرست بنا کر اُن پر یہ ڈرامہ بنایا ہے۔‘‘

زی فائیو چینل سے نشر کیے جانے والے ڈرامے ’’برزخ‘‘ کی ابتدائی قسط کے ساتھ ہی درج بالا اعتراضات جیسے جملے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر سننے اور پڑھنے کو ملے۔ ڈرامے کے جس پہلو پر سب سے زیادہ اعتراض سامنے آیا وہ ایک مرد کردار کا اپنے ہی ہم جنسوں میں ’’دلچسپی‘‘ لینا تھا۔

یہ ڈرامہ پاکستانی چینل پر نشر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ ویب سیریز بھارتی اسٹریمنگ ویب سائٹ زی فائیو کے لیے بنائی گئی تھی اور اسے زی زندگی کے یوٹیوب چینل پر بھی ریلیز کیا گیا۔ یہ ڈرامہ صرف چھ اقساط پر مشتمل تھا، جس کے مکمل نشر ہونے اور پاکستانی ناظرین کی جانب سے بے پناہ تنقید اور مخالفت کے بعد ’’پاکستانی ناظرین کے لیے‘‘ یوٹیوب سے ہٹانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر برزخ ڈرامہ کے خلاف اس قدر شور برپا تھا کہ شوبز سے متعلقہ صفحات اور سوشل سائٹ ایکس (ٹویٹر) پر ہر دوسری پوسٹ میں برزخ کی بات جارہی تھی، یہاں تک کہ یوٹیوب سے ہٹائے جانے کے اعلان کے بعد بھی ایکس پر ’’برزخ‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ میں رہا۔ فیس بک بھی ہماری وال پر ہمیں مختلف بلاگ پڑھنے کی ترغیب دیتا رہا جو برزخ پر لکھے گئے تھے۔ ان تحریروں کا بھی نمایاں پہلو صرف تنقید تھی، برزخ کی حمایت یا تعریف میں محض چند ایک ہی تحاریر دیکھنے کو ملیں، لیکن ان پوسٹوں کی نیچے جو تبصرے تھے وہ صرف ڈرامہ کےلیے ہی نہیں بلکہ وہ پوسٹ لکھنے والوں کے لیے بھی نفرت لیے ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ جب ایک بات بار بار دہرائی جائے تو دماغ پھر اسی سمت سوچنے لگتا ہے، سو ہم بھی اپنی مصروفیات کی بنا پر جو یہ ڈرامہ نہیں دیکھ سکے تھے، اسے دیکھنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر کیا وجہ ہے جو اس ڈرامے کے خلاف اس قدر شور برپا ہے۔ یہ فیصلہ ہم نے بروقت کیا کیونکہ اگلے ہی دن خبر آئی کہ اس ڈرامے کو یوٹیوب سے ہٹا دیا جائے گا۔ بہرحال ہم تو یوٹیوب سے اس ڈرامے کی تمام اقساط ڈاؤن لوڈ کرچکے تھے، کیونکہ آن لائن رہتے ہوئے مستقل یہ ڈرامہ دیکھنا کم از کم ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔

ڈرامے کا ابتدائی سین ہی بہت ’’بالغانہ‘‘ تھا۔ ’’کھلے آسمان تلے ایک پیڑ کے نیچے نیم برہنہ مرد الٹا لیٹا پھل کھا رہا ہے، اس کی پشت سے ایک نسوانی ہاتھ آتا ہے جسے وہ آدھا پھل پکڑا دیتا ہے، اور وہ نسوانی ہاتھ اس مرد کی کمر پر اُس پھل کا رس نچوڑتا جاتا ہے۔‘‘ اس منظرنگاری کو یہیں روک دیتے ہیں ورنہ پڑھنے والوں کے بھی جذبات مختل ہوں گے۔ تنہائی میں یہ منظر دیکھ رہے ہوتے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن وائے افسوس کہ آفس کمپیوٹر پر سب سے سامنے ہی یہ سیریز دیکھنے بیٹھ گئے تھے۔ پہلے منظر پر ہی یہ شاک لگا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟ کیا کیجئے کہ ہم بھی اسی معاشرے کے پروردہ ہیں، تھوڑی بہت منافقت تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ اور کچھ ایسی ہی منافقت اس ڈرامہ پر تنقید کرنے والوں میں دیکھی جو شاید ہماری طرح ہی تنہائی میں سب کچھ ’’درست‘‘ سمجھتے ہیں لیکن سامنے اصلاحِ معاشرہ عزیز رکھتے ہیں۔

ویسے کیا ضروری تھا کہ ڈرامہ کی ابتدا اس ہی ’’بالغانہ‘‘ منظر سے کی جاتی، ابنِ آدم اور بنتِ حوا کو شرافت سے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا بھی تو دکھایا جاسکتا تھا۔ دیکھنے والوں کو ڈائیلاگز کے ذریعے پیغام تو اُس منظر سے بھی پہنچ ہی جاتا۔ لیکن ڈرامہ اور فلم میں مناظر کی خوبصورتی ہی تو اہم ہوتی ہے، تو کیا ہوا کہ یہ منظر تھوڑا ’’بولڈ‘‘ تھا لیکن کسی بھی قسم کی ’’غلط حرکت‘‘ نہیں دکھائی گئی۔ جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھتا گیا کچھ لوگوں کی یہ رائے بھی واضح ہوتی گئی کہ ’’یہ ڈرامہ ساس بہو کی کہانیاں دیکھنے والوں کے لیے نہیں بنایا گیا‘‘۔ بلاشبہ یہ ایک آرٹ ڈرامہ ہے، جس کے ہر منظر، ہر کردار اور فلمانے پر محنت کی گئی ہے۔ مناظر کی دلکشی کے ساتھ، اداکاری اور پرمعنی ڈائیلاگز نے اس ڈرامہ کو دیگر ساس بہو ڈراموں سے ممیز کردیا ہے۔ کئی ڈائیلاگز فلسفے کی جھلک لیے ہوئے تھے۔

بلاشبہ ابتدائی دو اقساط الجھی ہوئی تھیں، جن میں ناظرین کو فوری طور پر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ گنجلک ابتدا کے ساتھ ناظرین کے تجسس کو ابھارا گیا تھا لیکن جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھتا ہے کہانی سمجھ میں آنے لگتی ہے، اور تیسری قسط سے کافی باتوں کی وضاحت خود بخود ملنے لگتی ہے۔ لیکن یہ تیسری قسط ہی تو تھی جس نے پاکستان میں اس ڈرامے کے خلاف احتجاج اور تنقید کو ہوا دی۔ حالانکہ ابتدائی دو اقساط میں ہی اس بات کا اشارہ دے دیا گیا تھا، لیکن تیسری قسط میں یہ عقدہ کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ ڈرامے کا ایک کردار سیف اللہ اپنے ہی ہم جنسوں کی طرف میلان رکھتا ہے۔ ہمارے منافقانہ معاشرے میں یہ بات کس طرح برداشت کی جاسکتی ہے کہ سرعام یوں اپنی خامیوں اور برائیوں کو سامنے لایا جائے۔ ہاں کچھ لوگ یہ ضرور کہتے پائے گئے کہ ’’معاشرے میں تو اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے لیکن کیا ڈراموں میں سب کچھ دکھا دیں؟‘‘

ڈراموں میں سب کچھ نہیں دکھایا جاسکتا لیکن بہرحال ڈرامے معاشرے کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔ ہاں اسے ڈرامے میں پیش کس طرح کرنا ہے، یہ ایک خوبی ہوتی ہے۔ تیسری قسط کے جس منظر پر بہت زیادہ تنقید کی گئی کہ ایک مرد دوسرے مرد کا بوسہ لے رہا ہے، دراصل وہ بوسہ منظر میں لیا ہی نہیں جاتا۔ بلکہ اپنی نفسانی کیفیتوں اور جذبات کی شورش میں الجھا ہوا سیف اللہ اس دوسرے مرد کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ کسی کی شخصیت اور نفسیاتی پہلوؤں کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اجاگر کرنا کیسے غلط ہوسکتا ہے۔ لیکن اس منظر کو ہی مدعا بنا کر تنقید کی ابتدا کی گئی۔ ہماری نظر میں غلط تو اس وقت ہوتا اگر ڈائریکٹر باقاعدہ بوسہ لیتے ہوئے فلماتا یا کسی اور غلط انداز میں منظرکشی کرتا۔ لیکن پورے ڈرامے میں ایسا کچھ نہیں تھا، صرف اِس کردار کا یہ پہلو دکھایا گیا تھا کہ اُسے اپنے ہی ہم جنسوں میں کشش محسوس ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک اور جو اعتراض اٹھایا گیا کہ ڈرامے میں لڑکی شادی سے پہلے حاملہ ہوجاتی ہے اور اس سے معاشرے میں غلط پیغام جائے گا۔ لیکن ایسی کہانی تو ساس بہو کے اکثر ڈراموں میں دکھائی جارہی ہے اور وہ ڈرامے پاکستان کے چینلز پر ہی نشر ہورہے ہیں۔ بلکہ ان ڈراموں میں تو مزید آگے بڑھ کر مقدس رشتوں کی پامالی بھی دکھائی جارہی ہے۔ کیا ایسے ڈرامے قابل قبول ہیں؟ اور کیا ان سے معاشرے میں غلط پیغام نہیں پہنچ رہا۔

یہاں ہم برزخ ڈرامے کی مکمل کہانی اور کرداروں کا تجزیہ پیش نہیں کریں گے۔ اگر کسی کو اس موضوع میں دلچسپی ہے تو وہ سرچ کرکے اب بھی یہ ڈرامہ دیکھ سکتا ہے۔ یوٹیوب سے ہٹائے جانے کے باوجود بھی یہ ڈرامہ ناظرین کی دسترس میں ہے۔ اس طرح کسی بھی ڈرامے یا فلم پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ زیر نظر بلاگ کا مقصد بھی لوگوں کو یہ ڈرامہ دیکھنے پر راغب کرنا یا بے جا تنقید میں حصہ لینا نہیں تھا، بلکہ ڈرامہ دیکھنے کے بعد ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ڈرامے پر تنقید کی جتنی بھی پوسٹیں وائرل ہیں ان میں اعتراض برائے اعتراض تو ضرور کیا گیا ہے لیکن ڈرامے کے مختلف پہلوؤں اور کہانی کی خوبصورتی کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ بلکہ کئی تحاریر تو ایسی بھی نظر سے گزریں جنھیں پڑھ کر ہی احساس ہورہا تھا کہ لکھنے والے نے ڈرامہ دیکھے بغیر اور دوسروں کی تنقید کر پڑھ کر بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوئے ہیں۔ ڈرامے کے صرف منفی پہلوؤں پر ہی بات کی گئی، لیکن مثبت پہلوؤں کو نظرانداز کردیا گیا۔ برزخ ڈرامے میں کئی مثبت پیغامات بھی دیئے گئے ہیں جن کی اس معاشرے کو ضرورت ہے۔

اب جب کہ یہ ڈرامہ یوٹیوب سے ہٹادیا جائے گا تو کیا پھر بھی لوگ اسے نہیں دیکھیں گے؟ بلاشبہ یہ ڈرامہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر پیش نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی اسے دیکھنے والے نے سرچ کرکے دیکھا، اور جو نہیں دیکھنے والے تھے، وہ بھی اُن بے جا تنقید کرنے والوں کی وجہ سے دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ اور اب بھی جو اسے دیکھنا چاہے گا وہ دیکھ سکتا ہے۔ یہاں ہم ڈرامے کے ڈائریکٹر کا ایک جملہ ضرور دیں گے جو انھوں نے یوٹیوب سے ڈرامہ ہٹائے جانے کے بعد کہا کہ ’’یہ فیصلہ واقعی بہترین ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جنھوں نے ہم پر محبت کی بارش کی۔ مجھے امید ہے کہ آپ آخری قسط سے لطف اندوز ہوں گے! اور یاد رکھیں، کہانیاں کبھی مرتی نہیں ہیں۔‘‘

بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں