عمران خان کو جیل میں ایک سال مکمل، رہائی کب تک ممکن ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل میں قید ہوئے گزشتہ روز یعنی 5 اگست کو پورا ایک سال مکمل ہوچکا ہے، اس عرصہ میں انہیں پہلے اٹک جیل اور پھر اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا ہے، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی ان کے ہمراہ اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

عمران خان کی رہائی میں اس وقت کونسی سیاسی اور قانونی رکاوٹیں موجود ہیں اور ان کی رہائی کب تک ممکن ہوگی؟ اس ضمن میں وی نیوز نے کچھ ماہرین سے گفتگو کی ہے۔

نیب کے سابق اسپیشل پروسیکیوٹر عمران شفیق سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے پاس اس وقت بہترین وکلاء کی ٹیم ہے، ان کی سیاسی حکمت عملی میں بھی کوئی کمی نہیں، ان کیخلاف کیس بھی مضبوط نہیں لیکن کیس بنانے والے مضبوط ہیں۔

’عمران خان پر اس وقت سارے سیاسی نوعیت کے مقدمات قائم ہیں اس لیے جب ایسے مقدمات میں ضمانت بھی نہ ہونے دی جائے تو پھر عمران خان کی لیگل ٹیم تو کمزور نہ ہوئی بلکہ ہماری عدالتیں کمزور ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ نگار ماجد نظامی بھی اسی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کے مستقبل کا انحصار اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے۔ نوازشریف کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے پاس بہترین وکیل تھے لیکن ان کو عدالتوں نے سزائیں دی۔

’۔۔۔لیکن جب (نواز شریف کے) اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہوئے تو وہی سزائیں دھوئیں کی طرح اڑ گئیں، اس لیے یہ مسئلہ سیاسی حکمت عملی یا قانونی نوعیت کا نہیں بلکہ اسٹیبلشیمنٹ کے ساتھ تعلقات کا ہے۔‘
عمران خان موجودہ بیانیہ کے ساتھ باہر نہیں رہ سکتے
نیب کے سابق اسپیشل پروسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کمزور نہیں، ان کا بیانیہ اتنا مضبوط ہے کہ انہوں نے تمام مخالفین کو شکست دیدی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اس بیانیہ کے ساتھ وہ باہر نہیں رہ سکتے۔

عمران شفیق کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف کچھ مقدمات میں جان ضرور تھی لیکن جس طرح وہ مقدمات چلائے گئے اور عدالتوں نے ان کو سزائیں دیں اس سے وہ مظلوم بن گئے ہیں۔

’جس طرح عمران خان کا ٹرائل ہوا وہ ٹرائل عمران خان کا نہیں بلکہ ہماری عدالتوں نے اپنا ٹرائل کیا اور بدترین طریقے سے عدلیہ ایکسپوز ہوئی کہ کیسے عدالتیں استعمال کی جاتی ہیں

عمران شفیق کے مطابق نوازشریف کے مقدمات میں کچھ عدالتوں میں کچھ بھرم تھا لیکن عمران خان کے مقدمات میں تو نہ اوپن ٹرائل ہوا، نہ حق دفاع دیا گیا۔ ’جس طرح تیزی سے سزائیں دی گئیں وہ نہ صرف ملزم عمران خان کے ساتھ زیادتی تھی بلکہ پروسیکیوشن کے کیسز بھی جلد بازی کی وجہ سے خراب ہوئے۔‘

ماجد نظامی اس حوالے سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پارٹی میں موجودہ قیادت بھی چاہتی ہے کہ عمران خان جلد جیل سے باہر نہ آئیں اور وہ مقبولیت کو انجوائے کریں اور اس سے پارٹی کو بھی فائدہ ہے۔

ماجد نظامی کے مطابق ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں کے بارے میں بھی یہ گمان کیا جاتا تھا کہ انہیں اپنے قائد کی رہائی میں کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی، اس وقت خیبرپختونخوا میں حکومت کو زیادہ مسائل نہیں، پنجاب کی قیادت کو اپنے مقدمات کی زیادہ فکر ہے۔
عمران خان کی رہائی کب ممکن ہوگی؟
سینئر قانون دان عمران شفیق کے مطابق قانونی طور پر تو عمران خان کی رہائی بہت پہلے ہوجانی چاہیے تھی اب تو انہیں زبردستی جیل میں رکھا گیا ہے۔ ’عمران خان کے خلاف مقدمات میں سزائیں کالعدم ہوچکی ہیں، رییمانڈ بھی عدالتوں نے ختم کردیا، اب تو مختلف دیگر مقدمات میں گرفتاریاں ڈالی جارہی ہیں۔‘

تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ عمران خان جلد باہر آئیں گے۔ عدالتوں سے تو عمران خان کو ریلیف مل جاتا ہے لیکن ریاستی دباؤ عدالتی احکمات پر حاوی ہے اس لیے کسی بھی مقدمے میں ان کی گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں