خفیہ چیٹ میں کوئی معلومات افشا نہیں کی گئیں، صدر ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے اعلی عہدیداروں کی خفیہ چیٹ میں کوئی معلومات افشا نہیں کی گئیں۔ حوثیوں کے حملوں سے متعلق چیٹ میں خفیہ معلومات نہیں تھیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدیداروں کی خفیہ چیٹ میں کوئی معلومات افشا نہیں کی گئیں۔ حوثیوں کے حملوں سے متعلق چیٹ میں خفیہ معلومات نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ چیٹ کی تحقیقات ایف بی آئی کا مسئلہ نہیں، قومی سلامتی کے مشیر بہترین کام کر رہے ہیں۔ انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہی۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے پاس بہترین سگنل ٹیکنالوجی ہے۔ وہ روس کے خلاف پابندیوں پر غور کریں گے ۔۔ بلیک سی ڈیل کیلئے شرائط کا جائزہ لے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو ”دی اٹلانٹک“ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے بعد مزید مسائل کا سامنا ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایڈیٹر انچیف جیفری گولڈ برگ کو ایک گروپ چیٹ میں شامل کیا گیا تھا جہاں اعلیٰ حکومتی حکام یمن میں بمباری کے منصوبوں پر بات کر رہے تھے۔
ادھر وہائٹ ہاؤس نے منگل کے روز اس معاملے کی تحقیقات کرتے ہوئے الزاموں کو مسترد کرنے کی کوشش کی کہ حکومت کے راز خطرے میں ہیں۔

ٹرمپ نے امریکی سفیروں کے اجلاس میں کہا کہ جیسا کہ مجھے سمجھ آتا ہے، وہاں کوئی خفیہ معلومات نہیں تھیں۔ ہم نے اس کی تحقیقات کی ہے، یہ کافی سادہ ہے، حقیقت میں۔ یہ بس ایسا کچھ ہے جو ہو سکتا ہے۔“

ٹرمپ نے مزید کہا کہ ان کا ارادہ نہیں ہے کہ ملوث افراد سے سزائیں دلائیں، سوائے سگنل ایپ کے استعمال پر پابندی لگانے یا معافی مانگنے کے۔

یہ تمام تبصرے گولڈ برگ کے آرٹیکل کے جواب میں کیے گئے، جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح انہیں سگنل ایپ کے ذریعے وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل والز سے دعوت ملی۔

گولڈ برگ نے اس دعوت کو قبول کیا اور فوراً ہی خود کو یمن میں حوثی جنگجوؤں پر بمباری کے فوائد پر بات کرنے والی ایک گفتگو میں شامل پایا۔

گولڈ برگ نے چیٹ میں مخصوص فوجی معلومات کا اقتباس تو نہیں کیا، لیکن اپنے آرٹیکل میں حکومتی عہدیداروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا ذکر کیا، جن میں نائب صدر جی ڈی وینس اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ شامل تھے۔ ان عہدیداروں نے بمباری کے وقت اور یورپ سے اقتصادی فائدہ نکالنے کے بارے میں بھی بات کی۔

آرٹیکل کی اشاعت کے فوراً بعد واشنگٹن میں ہلچل مچ گئی اور یہ سوالات اٹھائے گئے کہ حساس معلومات کو غیر حکومتی پلیٹ فارم پر کیوں شیئر کیا گیا اور کیا ٹیکسٹ میسجز کو وفاقی ریکارڈز کے قانون کے مطابق محفوظ کیا جائے گا یا نہیں۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹ کلیف اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ٹلسی گببڑڈ نے سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس میں گواہی دی، جہاں ڈیموکریٹس کی جانب سے ان سے سخت سوالات کیے گئے۔

سینٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ صرف لاپرواہی نہیں تھی، بلکہ اگر یہ معلومات حوثیوں کے پاس پہنچ جاتیں، تو امریکی جانوں کا نقصان ہو سکتا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں