امریکی نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر نے کہا ہے کہ پاکستان کے میزائل سے امریکا بھی محفوظ نہیں ہے، پاکستان ایسے میزائل بنا رہا ہے جو امریکا کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں، پاکستانی اقدامات اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں سنجیدہ سوال اٹھاتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکی نائب مشیر قومی سلامتی جان فائنر کا ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے جو اسے جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف بشمول امریکا کو بھی نشانہ بنانے کے قابل بنا سکتے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ بیلسٹک میزائل جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس کیے جا سکتے ہیں۔
امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ اسلام آباد کا طرز عمل بیلسٹک میزائل پروگرام کے مقاصد کے بارے میں ’حقیقی سوالات‘ کو جنم دیتا ہے، پاکستانی اقدامات کو ابھرتی ہوئی دھمکی کے سوا کچھ اور چیز کے طور پر دیکھنا مشکل ہے۔
جون فائنر کا مزید کہنا تھا کہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام امریکا کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے اس بات کی نشاندہی 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے گزشتہ روز پاکستان کے 4 اداروں پر بیلسٹک میزائل کی تیاریوں میں معاونت پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستانی اداروں پر پابندی کے حوالے سے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ امریکا جوہری ہتھیاروں اور اس سے وابستہ تمام سرگرمیوں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کا یہ فیصلہ پاکستان کی جانب سے میزائل پروگرام کو وسعت دینے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق 4 پاکستان اداروں پر لگنے والی پابندی ایگزیکٹو آرڈر (ای او) 13382 کے تحت کی گئی ہیں، اور اس آرڈر کا اطلاق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور ان کی ترسیل کے سہولت کاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی پابندیوں پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے غیر منصفانہ قرار دیا، ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ نینشل ڈیولپمنٹ کمپلیکس اور دیگر 3 اداروں پر امریکی پابندیاں متعصبانہ ہیں۔
امریکی پابندی پر پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا تحفظ کرنا ہے، پابندیوں کی تازہ ترین قسط امن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے، جس کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ سٹریٹجک پروگرام ایک مقدس امانت ہے جسے 240 ملین لوگوں نے اس کی قیادت پر عطا کیا ہے اور اس مقدس اعتماد پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے، ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔
عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے، ماضی میں دوسرے ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے لیے لائسنس کی شرط کو ختم کر دیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے دہرے معیارات اور امتیازی طرز عمل نہ صرف عدم پھیلاؤ کی حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔