آرٹس کونسل کراچی میں 4روزہ عالمی اردوکانفرنس کا آغاز ہوگیا،افتتاحی تقریب میں وزیراعلی سندھ، معروف شعرا اوردانشوروں نے کانفرنس کواردو کےفروغ کااہم ذریعہ قراردیا۔
کراچی کے وائی ایم سی اے گراونڈ میں عالمی اردو کانفرنس کا میلہ سج گیا، سترہویں عالمی اردو کانفرنس جشن کراچی منایا جا رہا ہے افتتاحی تقریب میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے ستر سال مکمل ہونے پر کیک بھی کاٹا گیا ۔
افتتاحی تقریب میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، میئرکراچی، کمشنر کراچی، ادیبوں اور شعرا کی کہکہشاں نظر آئی، وزیراعلی سندھ نے کہاکہ کراچی کاہرگوشہ منفرد رنگ اورلب ولہجے کااظہار کرتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب سے وزیراعلیٰ بنا ہوں تب سے عالمی اردو کانفرنسوں میں مسلسل شریک ہورہا ہوں، اردو کانفرنس ہمارے شاندار تہذیبی ورثے اور پاکستان کی پائیدار ثقافتی میراث ہے،آرٹس کونسل کا ہر میگا فیسٹیول دنیا بھر کے فنکاروں، ادیبوں اور دانشوروں کو آپس میں جوڑتا ہے۔
انہوں نے کہ اس ادارے کا قیام 1954 میں سندھ میں رکھا گیا جو تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہے، فیض احمد فیض، مشتاق احمدیوسفی ، کمال احمد رضوی، اطمہ ثریا بجیا، طلعت حسین اور ان جیسی قد آور شخصیات نے اس ادارے میں اپنے کاموں اور تخلیقات کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان ادبی سرگرمیوں سے کراچی دنیا کے نقشے میں عالمی ثقافتی مرکز بن کر ابھررہا ہے، اس طرح کی سرگرمیاں پاکستان کی ثقافتی سفارت کاری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جہاں فن و ثقافت قوموں کو جوڑنے اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کیلے پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔
صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اردو زبان و تہذیب کی اہمیت پر روشنی ڈالی، کہا ادب اور ثقافت معاشرے کی اصل پہچان ہیں۔
احمد شاہ نے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس نے یہ بتایا کہ ہمارے ادیبوں کا معاشرے میں کیا کردار ہے، جب آپ کی تہذیب ختم ہوجاتی ہے تو آپ کی کوئی شناخت نہیں رہتی، ہم نے بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے، ہم نے کوئٹہ میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کیا ساتھ ہی ہم نے اپوزیشن اور گورنمنٹ کو ایک ساتھ بٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات بہت خراب تھے مجھے کہا گیا کہ اگر احمد شاہ الیکشن لڑے گا تو مارا جائے گا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور ثقافت کی فروغ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی اس وقت دس ہزار روپے ہماری گرانٹ تھی مگر آج کروڑوں میں اس کی گرانٹ ہے۔
مزاح نگار انور مقصود نے شرکاء کوخوب محظوظ کیا، انور مقصود کا کہنا تھا کہ جب میں کراچی آیا تو 7کروڑ سے زیادہ آبادی تھی اور آج 24کروڑ ہے، کراچی میں مردم شماری ہوتی ہے تو صرف مردوں کو گنا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی بڑا شہر ہے بڑے لوگ رہتے ہیں یہ شہر عجیب حالات سے گذرا ہے لیکن امید ہے اچھا ہوجائے گا، کراچی پیچھے جاسکتا ہے آگے نہیں جائے گا کیونکہ آگے سمندر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج آرٹس کونسل جس مقام پر ہے اس میں سندھ حکومت کا بڑا ہاتھ ہے، احمد شاہ آرٹس کونسل کے مولا جٹ ہیں آرٹس کونسل کے 70 سال مکمل ہونے پر جو فلم دکھائے گئی اس میں احمد شاہ ہر سین میں نظر آئے ۔
میں ہوں کراچی کے عنوان سےرکھی گئی نشست میں پاکستان کے سپراسٹار کامیڈین تابش ہاشمی اور اینکر وسیم بادامی نے شہرکی تاریخ اور معروضی حالات پر دلچسپ گفتگو کی۔
افتتاحی تقریب میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے 6مختلف ادیبوں کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، جن میں ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ، پشتو کے ممتاز شاعر، کالم نگار، محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسف زئی، بلوچی زبان کے معروف مصنف، دانشور اور علمی و ادبی شخصیت رمضان بلوچ ، پنجابی زبان کی معروف شاعرہ، نثر نگار ، مترجم و مصنفہ ثروت محی الدین ، سرائیکی کے معروف ادیب، شاعر اور دانشور رفعت عباس کو علمی و ادبی خدمات پر جبکہ ثقافت کے فروغ پر عبدالحمید اخوند شامل ہیں۔