پیپلز پارٹی سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچوں میں اپنی پسند کے ججوں کو نامزد کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئینی ججوں کی نامزدگی میں سندھ ہائی کورٹ کے آٹھ سینئر ججوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
بینچز کے سربراہ جسٹس کے کے آغا سنیارٹی لسٹ میں 9 ویں نمبر پر ہیں، واضح رہے کہ آئینی بینچ صرف سندھ ہائی کورٹ میں ہی بنائے جائیں گے۔
دیگر تینوں صوبوں اور وفاق نے آئینی بینچوں کی توثیق سے متعلق قرارداد منظور نہیں کی۔ معلوم ہوا ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا اور کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججوں کو آئینی بنچوں کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے۔
جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور وکلا نمائندوں نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی۔ اس معاملے میں وہ حکومتی نمائندوں کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔
جسٹس کے کے آغاپیپلز پارٹی دور میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل نیب رہے۔ بطور سرکاری وکیل 18ویں آئینی ترمیم کا بھی دفاع کیا۔
وہ ان چند ججوں میں شامل تھے جنہیں 31 جولائی 2009 کے آرڈرکے ذریعے ہٹانے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر دوبارہ تعینات کیا گیا۔ جسٹس کے کے آغا نے جج بننے کے لیے اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرنے سے انکار کردیا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت نے مبینہ غیرملکی جائدادیں ظاہر نہ کرنے پر انکے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ختم کرنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کیخلاف بھی کارروائی ختم کر دی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد نے کہا کہ سندھ اور وفاق کی حکومتیں ایسے ججوں کو منتخب کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں جو ان کے خیال میں انکی کم سے کم مخالفت کرینگے۔ عبدالمعیز جعفری نے کہاکہ ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ کار کو نو ججوں تک محدودکرنا ایک مذاق ہے جو برقرار نہیں رہ سکتا