اینٹی بائیوٹک ادویات کے غیر ضروری اور غیر منطقی استعمال، خاص طور پر اسپتالوں میں اینٹی بائیوٹکس کے بے جا استعمال سے ایسے جرثومے وجود میں آرہے ہیں جن کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے علاج کی مدت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا اور دیگر خردبینی اجسام کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے علاج کا نہ صرف دورانیہ طویل اور اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اموات کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے جرثوموں سے ہونے والی اموات کے بارے میں پاکستان میں کوئی ٹھوس ڈیٹا موجود نہیں، لیکن خدشہ ہے کہ ہر سال ہزاروں افراد مزاحم جراثیموں کے باعث ہونے والے انفیکشنز کی وجہ سے اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر عالمی ماہرین نے اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس نامی خاموش وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین نے وزارت صحت اور قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کی جانب سے اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) کے موضوع پر منعقد ہونے والے تیسرے قومی سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سمپوزیم کا انعقاد عالمی ہفتہ آگاہی برائے اینٹی بائیوٹک کی مناسبت سے عالمی ادارہ صحت، مقامی دوا ساز ادارے گیٹس فارما اور دی فلیمنگ فنڈ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد سلمان نے اس موقع پر کہا کہ اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کی وجہ سے انفیکشنز کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں متعدی بیماریوں کا علاج مشکل ہوتا جارہا ہے، ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے جراثیموں کی وجہ سے علاج کا نہ صرف دورانیہ طویل ہو رہا ہے بلکہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب اموات کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی سطح پر ایکسٹینسیولی ڈرگ ریزسٹنٹ (ایکس ڈی آر) انفیکشنز اور اسپتالوں میں خون کے نظام کے انفیکشنز کا علاج زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ اس سمپوزیم کا مقصد پاکستان میں اے ایم آر کے بڑھتے ہوئے خطرے کو اجاگر کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے واکس، سیمینارز، تربیتی سیشنز اور آگاہی مہمات کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ اینٹی بائیوٹک کے منطقی اور درست استعمال کو فروغ دیا جاسکے۔
وزارت صحت کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عطیہ ابڑو نے کہا کہ اے ایم آر نہ صرف انسانی صحت کو بلکہ غذائی تحفظ کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے کیونکہ یہ لائیو اسٹاک اور زرعی پیداوار کو متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ مزاحم جراثیم زرعی پیداوار میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرسکتے ہیں، جس سے مزاحمت کے جینز مزید پھیل سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی ایکشن پلان 2.0 کی تیاری اور تکنیکی و آگاہی اقدامات کی انجام دہی اے ایم آر کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی عزم کو ظاہر کرتی ہے، ان اقدامات کا مقصد اینٹی بائیوٹک کے عقلی استعمال کو فروغ دینا اور عوامی آگاہی بڑھانا ہے
گیٹز فارما کے پبلک ہیلتھ شعبے کے سربراہ جعفر بن بقر نے کہا کہ وہ قومی ادارہ صحت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اے ایم آر کے خلاف کام کررہے ہیں اور 15 ہزار سے زائد صحت کے پیشہ ور افراد کو تربیت دے رہے ہیں تاکہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے ازخود استعمال اور غیرضروری استعمال سے بچا جاسکے۔
انہوں نے اس موقع پر اینٹی بائیوٹک کو صرف ڈاکٹری نسخے پر استعمال کرنے اور نسخے کی مکمل مقدار اور مدت پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
قومی ادارہ صحت کی سائنسدان ڈاکٹر عمیرہ ناصر نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 11 اسپتالوں میں کی جانے والی ایک تحقیق میں 91 فیصد مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر غیرضروری تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر اسپتالوں میں اینٹی بائیوٹکس کے رہنما اصول موجود نہیں، اکثر اسپتالوں میں لیبارٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر نسخے تجویز نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے مزاحم جراثیموں کی موجودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
قومی ادارہ صحت کی فارماسسٹ نمرہ صفدر نے اے ایم آر کے مریضوں پر معاشی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے باعث علاج کے اخراجات میں نمایاں اضافہ اور اسپتال میں قیام کی مدت طویل ہو جاتی ہے۔
قومی ادارہ صحت کی مائیکروبیولوجسٹ ذروہ اشرف نے ای کولائی، سٹافائلکوس آوریئس اور کلیبسیلا نمونیا جیسے جراثیموں میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت پر تشویش ظاہر کی، جو کہ یو ٹی آئی اور سیپسس جیسے انفیکشنز کا سبب بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر اینٹی بائوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والا بیکٹیریا سالمونیلا ٹائفائی بھی پیچیدہ مسائل پیدا کررہا ہے جس کے نتیجے میں ٹائیفائیڈ بخار ہوتا ہے آنتوں میں سوراخ ہوجاتے ہیں۔
سمپوزیم سے فلیمنگ فنڈ کے ڈاکٹر قدیر احسن، عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر نوید اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے ڈاکٹر شہیر الہی نے بھی خطاب کیا۔
سمپوزیم کے آخر میں ایک مباحثہ بھی منعقد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر منزہ، محمد اکرم اور ڈاکٹر حِفزہ رشید نے اے ایم آر کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے صحت، زراعت اور ماحولیاتی شعبوں کے درمیان تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔