آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دیدی

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کی منظوری دے دی ہے، جس کے لیے پہلی قسط 1.1 ارب ڈالر جاری کی جائے گی، قرض پروگرام 37 ماہ پر محیط ہو گا۔
اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے امید ظاہر کی تھی کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ منظوری کے آخری مراحل میں ہے کیونکہ پاکستان نے اس کی تمام کڑی شرائط قبول کر لی ہیں۔
واشنگٹن میں عالمی مالیاتی فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کی زیر صدارت ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے دوران پاکستان کا ایجنڈا سب سے پہلے رکھا گیا تھا، اجلاس میں پاکستان کی جانب سے کڑی شرائط پر رضامندی کے بعد بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی گئی۔
پاکستان کو 30 ستمبر تک 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنے کا امکان ہے۔ جب کہ قرض پروگرام کی منظوری کے بعد اسی مالی سال میں دوسری قسط بھی متوقع ہے جس میں آئی ایم ایف کا قرض 5 فیصد سے بھی کم شرح سود پر فراہم کیا جائے گا۔ 12 جولائی کو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان توسیعی فنڈ سہولت قرض پروگرام پر اتفاق کیا گیا تھا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی منظوری سے پاکستان کے معاشی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کی توقع ہے اور پاکستان پر ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوگا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اب 7 ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دے دی ہے جس کے لیے پاکستان نے اپنے زرعی انکم ٹیکس میں اصلاحات، کچھ مالی ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کرنے اور ملکی تاریخ کا سب سے مہنگا قرض لینے کا وعدہ کیا تھا۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 37 ماہ پر محیط توسیعی فنڈ سہولت کی منظوری دی جس کی مجموعی مالیت 7 ارب ڈالر ہے۔ بورڈ اجلاس میں ہی آئی ایم ایف نے تقریباً 1.1 بلین ڈالر کے قرض کی پہلی قسط فوری طور پر جاری کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔
نئے بیل آؤٹ پیکج کا ہدف پبلک فنانس کو مستحکم کرکے میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنا، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا، سرکاری اداروں کے مالی خسارے کو کم کرنا اور نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے کاروباری ماحول کو بہتر بنانا ہے۔
اس پروگرام کے لیے حکومت نے 1.4 ٹریلین روپے سے 1.8 ٹریلین روپے تک کے اضافی ٹیکس لگائے، بجلی کی قیمتوں میں 51 فیصد تک اضافہ کیا اور خود مختار دولت فنڈ کے معاملات میں شفافیت لانے کا عہد کیا۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے بورڈ میٹنگ کی تاریخ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا 600 ملین ڈالر کا قرض بھی لیا۔
ماضی میں صوبائی بجٹ آئی ایم ایف کے قرض پرورگرام کے دائرہ کار سے باہر تھے، نئے پروگرام کو صوبائی بجٹ اور ان کے محصولات تک بھی توسیع دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی تقریباً ایک درجن شرائط ہیں جو نئے پروگرام کے تحت صوبوں کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔
وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں آئندہ منگل تک ایک نئے قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کریں گی جس کے تحت صحت، تعلیم، سوشل سیفٹی نیٹ اور روڈ انفراسٹرکچر منصوبوں کی ذمہ داریاں صوبائی حکومتوں کو منتقل کی جائیں گی۔
چاروں صوبائی حکومتیں 30 اکتوبر تک اپنے قوانین میں ترمیم کرکے اپنے زرعی انکم ٹیکس کی شرحوں کو وفاقی پرسنل اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرحوں سے ہم آہنگ کریں گی۔ اس کے نتیجے میں اگلے سال جنوری سے زرعی انکم ٹیکس کی شرح 12-15 فیصد سے بڑھ کر 45 فیصد ہو جائے گی۔

تمام صوبائی حکومتیں بجلی اور گیس پر مزید سبسڈی نہیں دیں گی اور یہ حکومتیں کوئی نیا اسپیشل اکنامک زون یا ایکسپورٹ پروسیسنگ زون بھی قائم نہیں کریں گی۔ وفاقی حکومت اس طرح کا کوئی نیا اقتصادی زون بنانے کی حقدار نہیں ہوگی اور 2035 تک موجودہ زونز کی ٹیکس مراعات ختم کر دے گی۔
ایک اور شرط کے مطابق پاکستان 3 سالہ پروگرام کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 4.2 فیصد کے بنیادی بجٹ سرپلس کو ظاہر کرےگا۔ بنیادی بجٹ سرپلس کا حساب سود کی ادائیگیوں کو چھوڑ کر کیا جاتا ہے۔
جی ڈی پی خسارے کا 4.2 فیصد غیر سودی اخراجات کو نمایاں طور پر کم کرے گا اور موجودہ ٹیکس دہندگان پر جی ڈی پی کے 3 فیصد کے برابر اضافی ٹیکس بوجھ ڈالے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت رواں مالی سال میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر پرائمری سرپلس ظاہر کرنا ہوگا اور اگلے 2 سالوں میں تقریباً 3.2 فیصد ظاہر کرنا ہوگا تاکہ قرضوں اور جی ڈی پی کے تناسب کو پائیدار گراوٹ کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
ٹیکس شارٹ فال کی صورت میں حکومت نے منی بجٹ لانے کا وعدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں درآمدات، کنٹریکٹرز، پروفیشنل سروس پرووائیڈرز اور فرٹیلائزر پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
رواں مالی سال کے لیے پاکستان معیشت کے حجم کے لحاظ سے دفاع اور سبسڈی پر اخراجات کو گزشتہ مالی سال کی سطح پر رکھنے کا پابند ہوگا۔
تاہم، پروگرام کے ڈیزائن میں قرضوں کی عدم استحکام کے مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کیا گیا ہے اور یہ پروگرام کی مدت کے دوران بیرونی قرضوں کو پورا کرنے کی حکمت عملی کے تحت بنایا گیا ہے۔ پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پروگرام کی مدت کے دوران سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کا 12.7 ارب ڈالر کا قرض واپس نہیں کرے گا۔
ادھر ایشیائی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی اور ادارہ جاتی کشیدگی کی وجہ سے ان اصلاحات پر عمل درآمد مشکل ہو سکتا ہے جو پاکستان نے آئی ایم ایف کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اصلاحات اس بات کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی اہم ہیں کہ بیرونی قرض دہندگان پاکستان کو قرضے دیتے رہیں۔
واضح رہے کہ جب پاکستان نے جولائی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے3 سالہ بیل آؤٹ پیکج کے لیے عملے کی سطح کا ایک اور معاہدہ (ایس ایل اے) کیا، تو اسے حکومت، جس نے چند ماہ پہلے اقتدار سنبھالا اور ملک دونوں کے لیے لائف لائن کے طور پر سراہا گیا تھا۔
تاہم 2 ماہ بعد پاکستان عالمی قرض دہندہ کی جانب سے اس نئے پروگرام کی منظوری کا انتظار کر رہا تھا، جو 1958 میں اس طرح کے پہلے بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کے بعد سے پاکستان کا 25 واں بیل آؤٹ معاہدہ ہے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ، جو ایس ایل اے کی توثیق اور فنڈز جاری کرنے کا ذمہ دار ہے، نے آخری اطلاعات تک پاکستان کے معاملے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا تھا۔ اس تاخیر سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی تھی کہ آیا قرضوں کے بوجھ تلے دبا ملک آئی ایم ایف کی بیل آؤٹ شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف پر فنڈز کے اجرا میں جان بوجھ کر تاخیر کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے اہم مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ 8 ستمبر کو لندن میں ایک سرکاری تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ جب پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا تو ملک میں افراتفری کی سیاست چل رہی تھی۔
پاکستان کی معاشی مشکلات
2019 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کا 3 سالہ پروگرام حاصل کیا تھا لیکن 2022 کے اوائل میں ایندھن کی قیمتوں میں زبردست کمی کرکے اس کی شرائط کی خلاف ورزی کر کے معاہدہ توڑنے کی کوشش کی گئی۔
موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں آنے والی مخلوط حکومت نے اگست 2022 میں اس پروگرام کو دوبارہ شروع کیا۔ لیکن شہباز شریف کی حکومت 2019 کے قرض کے معاہدے کے تحت طے شدہ 6.5 ارب ڈالر کی بقیہ قسط حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں