آسٹریلیا کی حکومت نے حال ہی میں سال 2025 کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں غیر ملکی طلبا کی تعداد کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نئی پالیسی کے تحت آسٹریلیا کی حکومت نے طلبا کی انرولمنٹ میں کمی لاتے ہوئے صرف 2 لاکھ 70 ہزار بین الاقوامی طلبا کو ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ نئی پالیسی کےمطابق آسٹریلیا کے ہر تعلیمی ادارے میں غیر ملکی طلبا کے داخلوں کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پیشہ وارانہ تعلیم دینے والے اداروں کو ہوگا۔
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کی ایک وجہ تعلیمی معیارکو بہتر بنانا بھی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلبا اسٹڈی ویزے پرآتے ہیں اور پڑھنے کے بجائے کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے ڈگری کے مطابق نوکری نہیں ہے تو ایسے افراد واپس چلے جائیں۔
یاد رہے کہ آسٹریلوی حکام نے مالی سال کے دوران 30 جون 2023 تک 5 لاکھ 77 ہزار غیر ملکی طلبا کو تعلیمی ویزے جاری کیے تھے۔
آسٹریلیا کی اس پالیسی سے پاکستانی طلبا کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور آسٹریلیا جانے کے خواہشمند افراد اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟
گزشتہ 12 برس سے آسٹریلیا میں بیلا کارپ کے نام سے آئی ٹی کمپنی چلانے والے تمجید اعجازی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں میں آسٹریلیا نے غیر ملکی طلبا کواپنی تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ داخلے دیے، جس کے بعد آسٹریلیا میں طلبا کی تعداد میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہو گیا اور طلبا نے بھی اسٹڈی بیک گراؤنڈ سے لنک کیے بغیر بس داخلے کے چکر میں کسی بھی شعبے میں داخلہ لے لیا۔
انہوں نے بتایا کہ طلبا یہاں آکر چھوٹی موٹی نوکریاں شروع کر دیتے ہیں اور پیسا کمانے میں مگن ہو جاتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر طلبا اپنی ڈگریاں تبدیل کروا لیتے ہیں جو انہیں پی آر کی طرف لے کر جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یوں ان طلبا میں سے کوئی 8 سال اور کوئی 10 سال سے سٹوڈنٹ ویزے پرآسٹریلیا بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی ڈگریاں مکمل ہو رہی ہیں نہ وہ واپس جا رہے ہیں اور نہ ہی جس کریئرکے لیے آسٹریلیا نے ان کو ویزا دیا تھا، اس میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور اس طرح کے بہت سے ممالک کے طلبا جو یہاں آتے ہیں۔ ان کا مقصد ڈگریاں مکمل کرنا نہیں بلکہ پی آر لینا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اب غیر ملکی طلبا پرپابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
تمجید اعجازی کا کہنا تھا کہ’اگر آسٹریلیا جن شعبوں میں غیر ملکی طلبا کو داخلے دے رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس صنعت میں نئے لوگوں کی ضرورت ہے۔ مگر جب طلبا یہاں آکر ڈگریاں یا اپنا مضمامین تبدیل کریں گے اورچھوٹی موٹی نوکریوں کے ذریعے پیسہ کمانے کو ترجیح دیں گے اور ڈگری مکمل کرنے میں 10 سال لگا دیں گے تو اس طرح کی صورتحال میں کوئی بھی ملک پھر ایسی پابندیاں تو ضرور لگائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آسٹریلیا کی امیگریشن سے منسلک پالیسیوں میں گزشتہ برس بھی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں اور مزید بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ نمبر آف پوائنٹس بڑھتے جا رہے ہیں تو اس صورت حال میں آسٹریلیا جانے کے خواہشمند افراد کے لیے وہاں جانا زیادہ مشکل ہو جائے گا اور بہت سے افراد کے لیے اب اپنی فیلڈ کی جاب نہ کرنے کی وجہ سے رہنا بھی مشکل ہو جائے گا۔‘
ویزا کنسلٹنٹ فاحد حسین نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران آسٹریلیا جانے والوں میں طلبا کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ کیونکہ آسٹریلیا نے گزشتہ برس بھی زیادہ سے زیادہ طلبا کو اپنے تعلیمی اداروں میں داخلے دیےہیں۔ مگراب 2025 کے لیے طلبا کی تعداد میں تقریباً نصف سے بھی کم انرولمنٹ پالیسی بنائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کنسلٹنٹس کے پاس آسٹریلیا جانے والے طلبا کی لمبی لسٹیں ہیں اور اب ہمارے لیے بھی طلبا کو آسٹریلیا بھیجنے کو یقینی بنانا بہت مشکل ہو جائے گا‘۔
فاحد حسین کا کہنا تھا کہ ’کام تو طلبا تمام ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ مگر دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ آدھے سے زیادہ لوگوں کی نیت پڑھائی نہیں بلکہ کمائی کی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آسٹریلیا کے علاوہ لندن اور یورپ کی بھی ویزا پالیسیوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی تبیدیلیاں دیکھی گئی ہیں اور اب طلبا کے لیے بیرون ممالک جا کر تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘
محمد طلحہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی سے آئی ٹی میں گریجوئیشن کر رہے ہیں، وہ ابھی دوسرے سمسٹر میں ہیں۔ مگر وہ گریجوئیشن کے لیے آسٹریلیا جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی نظر میں آسٹریلیا جانا باقی ممالک کی نسبت قدرے آسان ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے گریجوئیشن کے لیے آسٹریلیا کا انتخاب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بڑے بھائی بھی اس وقت آسٹریلیا میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔
طلحہ نے مزید بتایا کہ ان کے بڑے بھائی تقریباً 2 سال قبل گئے تھے لیکن اُس وقت چیزیں بہت آسان تھیں۔ مگر گزشتہ 2 برسوں کے دوران پالیسیاں اتنی بدل چکی ہیں کہ ان کا جانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ میں نے وقت کو ضائع نہ کرنے کی وجہ سے عارضی طور پر اسلام آباد کی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے تاکہ میں اگر کسی مسئلہ کی وجہ سے نہ جا پاؤں تو کم از کم وقت ضائع نہ ہو۔
ان کاکہنا تھا کہ پوری کوشش میں ہوں کہ یہاں سے نکل جاؤں مگر آئے روز ایک نئی بات کا پتا چلتا ہے۔ جس کی وجہ سے امیدیں مدھم ہونے لگتی ہیں۔ پتہ نہیں طلبا وہاں جا کر کیوں اتنا بدل جاتے ہیں؟ پڑھائی چھوڑ کر چھوٹے موٹے کاموں پر لگ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے باقی طلبا کے لیے بھی مسائل وہاں جا کر پڑھنا مسئلہ بن جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد ان ممالک میں جا کر پڑھائی کر کے اچھی کمپنیوں میں اچھی پوزیشنز پر نوکری کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے کچھ لوگوں کے حالات انہیں ان نوکریوں پر مجبور کر دیتے ہیں۔لیکن اس کا نقصان باقی سب کو بھی ہوتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ طلبا کی وہاں جا کر پڑھائی میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں کی پڑھائی پاکستان کی پڑھائی سے بہت ایڈوانسڈ ہے۔ جو یہاں ہم آخری سمسٹر میں پڑھتے ہیں، وہاں پہلے سمسٹر میں پڑھائی جا رہی ہوتی ہے۔ اور نصاب کے اس فرق کی وجہ سے بہت سے طلبا گھبرا جاتے ہیں اور اچھے شعبوں اور مضامین میں داخلہ ملنے کے باوجود ڈگری، مضامین اور شعبے کو تبدیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
زنیرہ رفیع