ہر معاملے میں مصنوعی ذہانت سے رجوع انسان کی ذہنی صلاحیت کس طرح متاثر کرتا ہے؟

مصنوعی ذہانت (اے آئی) آج کل پڑھائی، کام اور معلومات حاصل کرنے کے لیے تیزی سے استعمال ہو رہی ہے لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس پر حد سے زیادہ انحصار ہماری سوچنے، سمجھنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کسی مشکل سوال کے لیے مضمون کا خاکہ، ڈیٹا کے تجزیے میں مدد یا یہ جانچنا کہ آپ کی جاب درخواست مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں؟ اس پر ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم ایسے کام مسلسل مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے سپرد کرتے رہے تو دماغ کم محنت کرنے لگے گا جس کے نتیجے میں تنقیدی سوچ اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

اسی سال میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ وہ افراد جنہوں نے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے مضامین لکھے ان کے دماغ کے وہ حصے کم متحرک رہے جو علمی اور فکری عمل سے متعلق ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے افراد اپنے ہی لکھے گئے مضامین کے حوالے آسانی سے بیان نہیں کر سکے جبکہ اے آئی استعمال نہ کرنے والے شرکا ایسا کرنے میں زیادہ بہتر تھے
محققین کے مطابق یہ تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اے آئی کے زیادہ استعمال سے سیکھنے کی صلاحیت میں کمی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

یہ تحقیق 54 شرکا پر کی گئی، جنہیں ایم آئی ٹی اور قریبی جامعات سے منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی دماغی سرگرمی الیکٹرو اینسفلاگرافی (ای ای جی) کے ذریعے ریکارڈ کی گئی۔
شرکا نے اے آئی سے سوالات کا خلاصہ بنانے، حوالہ جات تلاش کرنے، گرامر اور اسلوب بہتر کرنے اور خیالات ترتیب دینے جیسے کام لیے تاہم کچھ صارفین نے خیال ظاہر کیا کہ خیالات تخلیق کرنے میں اے آئی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔
ایک الگ تحقیق، جو کارنیگی میلن یونیورسٹی اور مائیکروسافٹ نے مشترکہ طور پر کی، میں بتایا گیا کہ اگر لوگ اے آئی پر حد سے زیادہ انحصار کریں تو ان کی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کمزور پڑ سکتی ہے۔

اس تحقیق میں 319 دفتری ملازمین کا سروے کیا گیا جو ہفتے میں کم از کم ایک بار اے آئی ٹولز استعمال کرتے ہیں۔ محققین نے ڈیٹا تجزیے سے لے کر قواعد کی جانچ تک 900 مختلف کاموں کا جائزہ لیا۔

نتائج سے ظاہر ہوا کہ جتنا زیادہ افراد کو اے آئی کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا، اتنی ہی کم وہ تنقیدی سوچ استعمال کر رہے تھے۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ جنریٹو اے آئی کام کی رفتار بڑھاتی ہے، مگر یہ افراد کو اپنے کام سے ذہنی طور پر کم جوڑتی ہے اور طویل مدت میں خود سے مسائل حل کرنے کی مہارت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

طلبہ پر اثرات
اکتوبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں 10 میں سے 6 اسکول طلبہ نے محسوس کیا کہ اے آئی نے ان کی تعلیمی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈالا ہے۔

تاہم او یو پی کی ماہر ڈاکٹر الیگزینڈرا ٹومیسکو کا کہنا ہے کہ تصویر اتنی سادہ نہیں۔

ان کے مطابق 10 میں سے 9 طلبہ نے بتایا کہ اے آئی نے کم از کم ایک تعلیمی مہارت، جیسے مسائل حل کرنا، تخلیقی صلاحیت یا امتحانی تیاری کو بہتر بنانے میں مدد دی۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک چوتھائی طلبہ کا کہنا تھا کہ اے آئی نے کام کو حد سے زیادہ آسان بنا دیا جس سے سیکھنے کا عمل متاثر ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر طلبہ چاہتے ہیں کہ انہیں اے آئی کے درست استعمال سے متعلق مزید رہنمائی دی جائے۔

بہتر نتائج، مگر کم سیکھنا؟
یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر وین ہومز کا کہنا ہے کہ تعلیمی میدان میں اے آئی کے اثرات پر ابھی بڑے پیمانے پر آزاد تحقیق موجود نہیں۔

ان کے مطابق کچھ تحقیقات میں ’ادراکی زوال کے شواہد ملے ہیں جہاں اے آئی استعمال کرنے سے انسان کی مہارتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا کہ اگرچہ اے آئی نے بعض ڈاکٹروں کی کارکردگی بہتر بنائی مگر کچھ کی صلاحیتوں کو نقصان بھی پہنچایا۔

پروفیسر ہومز کو خدشہ ہے کہ طلبہ اسکول یا یونیورسٹی میں اے آئی پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگیں گے جس کے نتیجے میں بنیادی تعلیمی مہارتیں پروان نہیں چڑھ سکیں گی۔

ان کے بقول اے آئی کی مدد سے طلبہ کے نتائج تو بہتر ہو سکتے ہیں، مگر اصل سیکھنے کا عمل کمزور پڑ سکتا ہے۔

اے آئی بطور استاد جواب دینے والی مشین نہیں
اوپن اے آئی میں بین الاقوامی تعلیم کی سربراہ جینا دیوانی کا کہنا ہے کہ کمپنی اس بحث سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ طلبہ چیٹ جی پی ٹی کو کام سونپنے کے لیے استعمال کریں۔

ان کے مطابق اے آئی کو استاد یا رہنما کے طور پر استعمال کرنا زیادہ مؤثر ہے جہاں یہ سوال کو حصوں میں تقسیم کر کے سمجھنے میں مدد دے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی طالب علم رات گئے کسی مشکل موضوع پر پریشان ہو تو اے آئی اسے رہنمائی فراہم کر سکتی ہے لیکن مکمل جواب دینا اس کا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔

تاہم پروفیسر وین ہومز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اے آئی استعمال کرنے والے طلبہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ نظام کیسے سوچتا ہے اور کمپنیاں ڈیٹا کو کیسے استعمال کرتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں