چین کی جانب سے دریائے یارلنگ سانگپو (جو بھارت میں داخل ہو کر برہم پُتر کہلاتا ہے) پر تاریخ کے سب سے بڑے اور پیچیدہ ہائیڈرو پاور منصوبے کی تعمیر نے بھارت میں تشویش بڑھا دی ہے۔ بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ’خطرناک اور رسکی‘ ڈیم بھارت، بنگلادیش اور پورے برہم پتر بیسن کے ماحول اور آبادی پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
یہ دریا تبّت سے نکل کر بھارت میں آتا ہے اور لاکھوں افراد کی کھیتی باڑی، ماہی گیری اور روزمرہ پانی کی ضروریات پوری کرتا ہوا بنگلادیش تک جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اوپر کی سطح پر بڑے پیمانے پر تعمیرات دریا کے قدرتی بہاؤ اور تال میل کو بُری طرح متاثر کرسکتی ہیں۔
منصوبے کی تفصیل اور اخراجات
چین 168 ارب ڈالر لاگت کے اس میگا ہائیڈرو سسٹم کے ذریعے 2 ہزار میٹر تک کے قدرتی ڈراپ سے توانائی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یہ متعدد ڈیم زیر زمین سرنگوں، ریزروائرز اور پاور اسٹیشنز پر مشتمل انتہائی تکنیکی منصوبہ ہوگا، جسے عالمی ماہرین زمین پر اب تک کا ’سب سے پیچیدہ‘ ڈھانچہ قرار دے رہے ہیں۔
بھارت کے خدشات اور ممکنہ اثرات
بھارتی ماہرین اور حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں تبدیلی سے بھارت کے زرعی نظام، فصلوں اور حیاتیاتی تنوع کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مچھلی کے قدرتی سفر اور دریا کی تہوں میں موجود معدنیات کے بہاؤ پر منفی اثر پڑے گا۔
بھارتی ماہرین کو یہ بھی تشویش ہے کہ موسمی سیلابی نظام اور دریائی توازن بگڑ سکتا ہے، جس سے شدید سیلاب یا پانی کی کمی جیسے خطرات بڑھ جائیں گے۔ منصوبہ اس خطے میں ماحولیاتی حساسیت کو چیلنج کرے گا، جہاں نایاب جنگلی حیات اور محفوظ قدرتی علاقے پائے جاتے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق چین اگر چاہے تو ڈیم کے ذریعے پانی روک کر یا چھوڑ کر بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے حکام یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ یہ منصوبہ ’واٹر بم‘ بن سکتا ہے۔
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ منصوبہ مکمل تحقیق کے بعد بنایا گیا ہے، جس میں ماحولیاتی اور انجینئرنگ احتیاطی تدابیر شامل ہیں اور اس سے نیچے کے علاقوں کو خطرہ نہیں ہوگا۔
بھارت کا ردعمل اور مستقبل کا راستہ
بھارت نے کہا ہے کہ وہ اس منصوبے پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور اپنی عوام و معیشت کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔ بھارت خود بھی برہم پُتر پر 11,200 میگاواٹ کے ڈیم کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، تاکہ چین کی تعمیراتی سرگرمیوں کا توازن قائم رکھا جا سکے۔











