ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی سفری پابندیوں کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرتے ہوئے مزید 20 ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے جاری کردہ سفری دستاویزات رکھنے والے افراد کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
نئی پابندیوں کے بعد امریکا میں داخلے پر قدغنوں سے متاثرہ ممالک کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق 5 نئے ممالک پر مکمل سفری پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ 15 دیگر ممالک کے شہریوں پر جزوی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کے سفری دستاویزات پر سفر کرنے والے افراد پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
نئی پابندیاں یکم جنوری سے نافذ العمل ہوں گی۔
مکمل سفری پابندی کی زد میں آنے والے نئے ممالک میں برکینا فاسو، مالی، نائجر، جنوبی سوڈان اور شام شامل ہیں، جبکہ جزوی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ممالک میں انگولا، اینٹیگوا و باربوڈا، بینن، آئیوری کوسٹ، ڈومینیکا، گیبون، گیمبیا، ملاوی، موریطانیہ، نائجیریا، سینیگال، تنزانیہ، ٹونگا، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ ان ممالک میں بدعنوانی، ناقابلِ اعتبار سفری و شہری ریکارڈ، ویزا کی خلاف ورزیوں، اپنے شہریوں کی واپسی سے انکار اور حکومتی عدم استحکام جیسے مسائل پائے جاتے ہیں، جس کے باعث شہریوں کی مؤثر جانچ ممکن نہیں رہتی۔
تاہم نئی پابندیوں میں بعض افراد کو استثنیٰ حاصل ہو گا، جن میں پہلے سے ویزا رکھنے والے افراد، مستقل امریکی رہائشی، سفارتی عملہ، کھلاڑی اور وہ افراد شامل ہیں جن کا امریکا میں داخلہ قومی مفاد میں سمجھا جائے گا۔
ان فیصلوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور امیگریشن کے حامی گروپوں نے شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں قومی سلامتی کے بجائے مخصوص ممالک اور قومیتوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانے کے مترادف ہیں۔
افغان شہریوں کے لیے خصوصی امیگرنٹ ویزا پروگرام کی حمایت کرنے والی تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ نئی پابندیوں میں ان افغان شہریوں کے لیے واضح استثنیٰ شامل نہیں جو امریکا کے ساتھ جنگ کے دوران تعاون کر چکے ہیں۔
دوسری جانب متعدد متاثرہ ممالک نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکی حکام سے رابطہ کر کے پابندیوں کی نوعیت اور اثرات پر وضاحت حاصل کریں گے۔











