چین کے شہری مصنوعی ذہانت (AI) پر امریکا اور مغربی ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والے ایڈل مین پول کے مطابق، چین میں 87 فیصد افراد نے کہا کہ وہ AI پر اعتماد رکھتے ہیں، جب کہ امریکا میں یہ شرح صرف 32 فیصد رہی۔
سروے کے مطابق چین میں 87 فیصد، برازیل میں 67 فیصد، امریکا میں 32 فیصد، برطانیہ میں 36 فیصد اور جرمنی میں 39 فیصد لوگ مصنوعی ذہانت پر اعتماد کرتے ہیں۔
چین میں AI سے سماجی مسائل کے حل کی زیادہ توقع
7 میں سے 10 سے زیادہ چینی شہریوں کا خیال تھا کہ AI موسمیاتی تبدیلی، ذہنی امراض، غربت اور معاشرتی تقسیم جیسے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کرے گی۔
اس کے برعکس صرف ایک تہائی امریکیوں نے کہا کہ AI غربت اور معاشرتی تقسیم کم کرسکتی ہے۔ نصف امریکیوں کا خیال تھا کہ AI موسمیاتی مسائل میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہے۔
AI کو اپنانے کا رجحان بھی چین میں زیادہ
چین میں 54 فیصد افراد نے کہا کہ وہ AI کے زیادہ استعمال کے حامی ہیں۔ امریکا میں یہ تعداد صرف 17 فیصد ہے۔
نوجوانوں میں اعتماد زیادہ، مگر مغرب میں پھر بھی کم
چین کے 18 سے 34 سال کے 88 فیصد نوجوان AI پر اعتماد کرتے ہیں۔ امریکا میں اسی عمر کے صرف 40 فیصد نوجوان اس ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
ایڈل مین کے سینئر نائب صدر گری گراسمن کے مطابق، یہ فرق کاروبار اور پالیسی سازوں کے لیے دوہرا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا ’زیادہ اعتماد والے ممالک میں ذمہ دارانہ ٹیکنالوجی اور واضح فائدے کے ذریعے عوام کا اعتماد برقرار رکھنا ضروری ہے، جبکہ کم اعتماد والے ممالک میں اداروں پر اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ٹیکنالوجی کی عالمی دوڑ میں امریکا اور چین آمنے سامنے
سروے ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکا اور چین جدید ترین AI ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ میں مصروف ہیں۔
اگرچہ امریکا کو اب بھی دنیا کے طاقتور ترین AI ماڈلز بنانے میں برتری حاصل سمجھی جاتی ہے، لیکن چین کی کمپنیاں جیسے علی بابا اور ڈیپ سیک حالیہ مہینوں میں کم لاگت والے اوپن لینگویج ماڈلز کے ذریعے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
گزشتہ ماہ ایئربنب کے سی ای او برائن چیسکی نے یہ کہہ کر دھوم مچا دی کہ ان کی کمپنی کو علی بابا کا ‘Qwen’، اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی پر ترجیح حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت اچھا ہے۔ تیز بھی ہے اور سستا بھی۔












