پاکستان کی درآمدات میں مسلسل اضافہ کون سے خطرات کا اشارہ ہے؟

رواں مالی سال کے ابتدائی 44 مہینوں (جولائی تا اکتوبر 2025) میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 38 فیصد سے بڑھ کر 12.58 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی بتائی جا رہی ہے، اسی عرصے میں ملک کی مجموعی برآمدات میں 4 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جولائی سے اکتوبر 2025 کے دوران درآمدات میں 15.1 فیصد اضافہ ہوا، جو 23.03 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

اس عدم توازن کی کئی بڑی وجوہات ہیں جن میں معاشی، پالیسی اور عالمی عوامل شامل ہیں، غیر مسابقتی توانائی ٹیرف (بجلی اور گیس کے زیادہ نرخ) پاکستانی مصنوعات کی لاگت بڑھاتے ہیں، جس سے وہ عالمی مارکیٹ میں مہنگی ہو جاتی ہیں اور ان کی مسابقت کم ہو جاتی ہے۔
مقامی صنعتوں، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے لیے، خام مال (جیسے کپاس) کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے انہیں درآمدات پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، جس سے درآمدی بل بڑھتا ہے۔ یورپی یونین اور شمالی امریکا جیسی بڑی برآمدی مارکیٹوں میں اقتصادی سست روی کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کے آرڈرز میں کمی آئی ہے۔

روپے کی قدر میں کمی درآمدات کو مزید مہنگا بنا دیتی ہے، جس سے ملک کا مجموعی درآمدی بل بڑھ جاتا ہے۔ ملک میں غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دینے کا رجحان بھی درآمدات کو بڑھاتا ہے، جیسا کہ مختلف شعبوں میں مقامی مصنوعات ہونے کے باوجود غیر ملکی برانڈز کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ پاکستان کی معیشت کے لیے کئی سنگین نتائج کا حامل ہے، تجارتی خسارہ ملک کے مجموعی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھاتا ہے۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو کرنٹ اکاؤنٹ جو پہلے سرپلس کی طرف جا رہا تھا، دوبارہ خسارے میں جا سکتا ہے۔
درآمدات کے لیے ڈالر کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دباؤ پڑتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کی وجہ سے روپے کی قدر مزید گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

معاشی ماہر اور سینئیر صحافی تنویر ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ جو اعداد سامنے آرہی ہیں جس میں تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے امپورٹ میں اضافہ اور ایکسپورٹ میں کمی آرہی ہے یہ معامہ اس سال جولائی سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے ہماری ایکسپورٹ کبھی بڑھ جاتی ہے پھر کم ہو جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمیں بین الاقوامی آرڈرز جم ملتے ہیں تو ایکسپورٹ بڑھ جاتی ہیں۔

تنویر ملک کا کہنا ہے کہ جب تجارتی خسارہ بڑھتا ہے تو یہ براہ راست کرنٹ اکاونٹ پر منفی اثر ڈالتا ہے اور ڈیفسٹ بڑھ جاتا ہے ڈیفیسٹ بڑھنے سے بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن آجاتا ہے اور اسکا براہ راست اثر پاکستانی روپے پر پڑتا ہے اور روپے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، تو ڈیمانڈ اور سپلائی کے میکنزم کو اگر دیکھا جائے تو روپے کمزور اور ڈالر تگڑا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
انکا مزید کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس وقت ریمٹنسز رہ گئے جس پر ہم اس وقت انحصار کر رہے ہیں اور یہ واحد شعبہ ہے جو اس وقت آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی بڑی تعداد میں ملک سے باہر جا چکے ہیں جو پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں، روپے کی قدر میں کمی سے ڈالر مہنگا ہوگا جس کی وجہ سے ہمیں ضروری اشیا مہنگی خریدنا پڑیں گی، تیل کی قیمتوں ہر اثرات پڑ سکتے ہیں، اس کا مجموعی اثرات پاکستان کی معیشت پر پڑیں گے اور عام پاکستانی متاثر ہوگا، اس دور حکومت میں ایکسپورٹ پر کوئی سنجیدہ اقدام نظر نہیں آرہا۔

ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے وی نیوز کو بتایا کہ گزشتہ دور حکومت ختم ہونے کے بعد جب نگران حکومت آئی تھی تو انتظامی اقدامات اٹھائے گئے تھے، اس وقت ڈالر روپے کے مقابلے تگڑا بھی تھا اور چھلانگیں بھی لگا رہا تھا، انکا کہنا ہے کہ اس وقت ڈیفالٹ کی باتیں بھی گردش میں تھیں تب نگران دور حکومت میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ان کی ٹیم نے اقدامات اٹھائے جو اس وقت کی ضرورت تھی۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ اس دور کے برعکس اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امپورٹ پر پابندی ہے اور نا ہی باہر پیسہ لیجانے پر بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا منافع ملک سے باہر گیا ہے کم و بیش 350 ملین ڈالر بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ 7 ماہ میں آئی ہے جس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ناصرف منافع کمایا بلکہ اسے باہر منتقل بھی کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے کسی مہینے امپورٹ میں تو کسی میں ایکسپورٹ میں اضافہ ہو جاتا ہے، جیسے کہ تیل باہر سے امپورٹ کیا جاتا ہے کبھی اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تو کبھی کم ہو جاتی ہے اب سردی آگئی تو گیس کی ڈیمانڈ بڑھے گی اور اس کی ایل سیز کھلیں گی تو یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
سینیئر صحافی محمد حمزہ گیلانی کا کہنا ہے کہ ہمارا ٹریڈ ڈیفیسٹ بڑھ گیا ہے اگر بات کی جائے امپورٹ کی تو 6 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ہمارے ایکسپورٹ 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کے آس پاس رہی ہے یو ہماری ٹریڈ ڈیفسیٹ 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کا ہے جو ایک تشو یشناک بات ہے، ہماری امپورٹ میں مسلسل اضافہ جبکہ ایکسپورٹ میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
حمزہ گیلانی کے مطابق اس میں بہتری کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایکسپورٹ پر مراعات دے، صنعتوں کے لیے الیکٹرک ٹیرف پر نظرثانی کی جائے، گیس کے یونٹس پر نظر ثانی کی جائے جب تک مراعات نہیں دیے جائیں گے تو ایکسپورٹ گرتی رہے گی، میڈ ان پاکستان نا ہونے کے برابر ہے تو مجبوراً امپورٹ کرنا پڑی گی انکا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر اگر آپ نے جینز ایکسپورٹ کرنے ہے لیکن اسکی زیپ اور بٹن چین سے منگوانے ہیں، ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات اور آسانیاں دینا ہوں گی۔
انکا مزید کہنا ہے ریمٹینسز اچھی ہیں لیکن وہ خسارہ پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، ہم امپورٹ بیسڈ کنٹری ہیں لیکن جب تک لوکلائزیشن پر نہیں جائیں گے تب تک کام نہیں چل پائے گا، ہمیں خودانحصاری کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے ہمیں لکثری اشیاء کو امپورٹ کرنے پر پابندی لگانا ہوں گے، ایکسپورٹ کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں