محمد عمیر دبیر
October 21, 2025
facebook
twitter
whatsup
mail
ڈاکٹر نگہت شکیل مخصوص نشست پر ایم کیو ایم کی رکن قومی اسمبلی ہیں (فوٹو فائل / اسکرین گریپ)
آن لائن یا واٹس ایپ کے ذریعے فراڈ کرنے والے گروہ نے اپنے پنجے اس طرح گاڑ لیے ہیں کہ اب اراکین قومی اسمبلی بھی ان سے محفوظ نہیں ہیں۔
اتوار کے روز ایک ایسا ہی واقعہ ایم کیو ایم (پاکستان) کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی نکہت شکیل کے ساتھ پیش آیا اور نوسربازوں نے اُن کے عزیزوں، رشتے داروں یا رابطہ کاروں سے تقریبا 15 لاکھ روپے بٹور لیے۔
ڈاکٹر نکہت شکیل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور، صحت اور کشمیر کی رکن ہیں۔
ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اتوار کی صبح تقریباً 9 بجے انہیں مختلف نمبروں سے تواتر کے ساتھ کالز موصول ہوئیں جس پر انہوں نے پہلے تو فون رکھ دیا۔
نکہت شکیل کے مطابق کالر نے اپنا تعارف پی ایم ڈی سے کروایا اور بتایا کہ آپ کے کچھ ضروری ڈاکومینٹس موصول ہوئے جنہیں آپ تک پہنچانا ضروری ہے، اسی کے ساتھ اُس نے موبائل پر بھیجا گیا کوڈ مانگا، جس پر میں سمجھی کہ پیر کو اسلام آباد میں صحت کمیٹی کی میٹنگ سے متعلق دستاویزات ہوں گی۔
‘کالز مسلسل آنے کی وجہ سے میرے شوہر بھی پریشان ہوئے اور پھر میں نے نیند کی حالت میں انہیں غلطی سے کوڈ بھیج دیا جس کے بعد نوسربازوں نے واٹس ایپ ہیک کر کے کئی نمبرز پر رابطے کر کے پیسے منگوائے‘۔
رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ نوسربازوں نے میرے رابطے میں رہنے والے نمبروں کو ایسے پیغامات بھیجے جس کی وجہ سے انہوں نے بھی تصدیق کیے بغیر پیسے بھیجنا شروع کردیے جبکہ کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے تصدیق کی اور فراڈ کا شکار ہونے سے بچ گئے۔
’پیسے موبائل نمبرز اور بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوئے‘
ڈاکٹر نکہت شکیل کے مطابق ہیکرز نے جن نمبرز پر رابطے کیے اُن کو دو آن لائن موبائل والٹ اور بینک اکاؤنٹ دیے گئے، جن میں سے دو بینک اکاؤنٹس اکاؤنٹ تھے اور دو مختلف ناموں کے موبائل نمبر تھے جن پر پیسے ٹرانسفر ہوئے۔
’میں نے بینک سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر تعاون سے انکار کیا کہ آپ کا اکاؤنٹ ہمارے پاس موجود نہیں جس کی بنیاد پر آپ کو کوئی معلومات دی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی شکایت درج کرائی جاسکتی ہے‘۔
نکہت شکیل نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) میں اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ سے متعلق آن لائن ایپلیکیشن جمع کرائی اور رابطہ کیا تو انہیں تحریری درخواست کے ساتھ کراچی کے دفتر آنے کی ہدایت کی گئی۔
’این سی سی آئی اے کا آن لائن سسٹم خراب ہے‘
رکن قومی اسمبلی کے مطابق انہوں نے تحریری درخواست جمع کرادی تاہم اس دوران این سی سی آئی اے کے عملے نے انہیں بتایا کہ ’آن لائن پورٹل اکتوبر سے خراب ہے، شکایت کنندہ کی درخواست صرف جمع ہوتی ہے تاہم وہ سسٹم کی خرابی کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتی جس کی وجہ سے کارروائی نہیں ہوپارہی‘۔
اس دعوے کی تصدیق کیلیے این سی سی آئی اے سے رابطے کی کوشش تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا۔
اُن کے مطابق ’میں اپنی میٹنگ کی وجہ سے اسلام آباد پہنچی اور مرکزی دفتر گئی تو ایک گھنٹے انتظار کے باوجود متعلقہ افسران نہیں پہنچ سکے، عملے کی جانب سے کہا گیا کہ شکایت کراچی میں ہی درج ہوگی‘۔
’جب میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو عام شہری کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا‘
نکہت شکیل کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد کے دفتر میں نے سوال اٹھایا کہ دسترس ہونے کے باوجود جب میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑ رہا ہے تو پھر عام شہری کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا، کیونکہ وہاں پر کوئی متعلقہ شخص شکایت سننے کیلیے دستیاب نہ تھا اور یہاں تک عام شہریوں کی رسائی نہیں ہے‘۔
واضح رہے کہ پاکستان کی متعلقہ اتھارٹیز بالخصوص پی ٹی اے کی جانب سے متعدد بار عوامی آگاہی کیلیے پیغامات جاری کیے جاچکے ہیں جس میں شہریوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے خفیہ ہندسوں کا کوڈ یا غیر ضروری لنک پر کلک کرنے سے گریز کریں۔
رکن قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ انہیں امید دلائی گئی ہے کہ جلد ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا تاہم نکہت شکیل کا کہنا ہے کہ 48 گھنٹے ہونے کو ہیں اور کارروائی نہیں ہوئی، اس کے علاوہ وہ اس بات پر بہت زیادہ افسردہ ہیں کہ اس معاملے کی وجہ سے لوگوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’میں نے فراڈ کا شکار ہونے والوں کو کہا ہے کہ وہ ٹرانزیکشن کے ثبوت اپنے پاس ضرور رکھیں تاکہ ہم ثبوت و شواہد کے ساتھ ملزمان کو گرفت میں لاکر رقم واپس حاصل کریں‘۔
انہوں نے بتایا کہ اپنا واٹس ایپ اکاؤنٹ دوبارہ حاصل کرلیا ہے جس کے بعد مزید انکشافات ہورہے ہیں۔