🎙️ ارم مشتاق — لفظ، آواز اور احساس کا سفر

🎙️ ارم مشتاق — لفظ، آواز اور احساس کا سفر

(ریڈیو پاکستان کی خوبصورت اینکر، آر جے اور ہمہ جہت ادبی شخصیت سے عامر عباس ناصر اعوان کی خصوصی گفتگو)

ادب و فن کی دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی موجودگی لفظوں میں نرمی، لہجے میں تاثیر، اور سوچ میں روشنی پیدا کرتی ہے۔ ارم مشتاق انہی ہمہ جہت اور باوقار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والی ارم مشتاق کے لیے ادب محض ایک مضمون نہیں بلکہ اُن کی ذات کا عکاس ہے۔ بچپن سے ہی کتابوں، کہانیوں اور تحریروں سے ان کی گہری وابستگی نے اُنہیں ایک فکری، سنجیدہ اور تخلیقی مزاج عطا کیا۔

گزشتہ تین برس سے وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہیں — جہاں ان کی آواز اور فکر نے ہزاروں دلوں کو متاثر کیا۔ ان کے پروگرام محض تفریح نہیں بلکہ شعور، احساس اور علم کے پل ہیں جو سامعین کو ایک بہتر فکری سمت دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے حلقہ اربابِ سخن ہزارہ ڈویژن کی صدارت سنبھالی ہے، جہاں وہ اردو ادب کے فروغ اور نئی نسل کی ادبی تربیت کے لیے سرگرم ہیں۔


ارم مشتاق کا یہ سفر — مائیکروفون سے لے کر ادبی محفلوں تک — اُن کی ہمہ جہت صلاحیتوں، عزم اور فکری گہرائی کا ثبوت ہے۔

🔶 ابتدائی زندگی اور تعلیم

۱۔ ارم صاحبہ! سب سے پہلے اپنے بچپن اور ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے۔ کیا ادب سے لگاؤ اُسی زمانے سے تھا؟
“میرا بچپن سوم الہی منگ، گاؤں ڈاڈر، ضلع مانسہرہ میں گزرا۔ یہ گاؤں خوبصورت اور ہریالی سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ ہریالی والے علاقوں میں رہتے ہیں، ان کے اندر بھی ایک قدرتی لگاؤ اور ادب سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ بچپن سے ہی مجھے کتابیں، کہانیاں اور ادیب پسند تھے، اور اسی وقت ادب کے ساتھ میرا گہرا تعلق قائم ہو گیا تھا۔ اسکول کے دنوں میں بچوں کی کہانیاں پڑھنا اور افسانے سننا مجھے بہت بھایا، اور یہ لگاؤ وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔”

۲۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کا انتخاب ایک خاص فیصلہ لگتا ہے، اس کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما تھا؟
“یہ ایک حادثاتی فیصلہ تھا۔ میٹرک میں میں نے کمپیوٹر سائنس سے کی تھی، گریجویشن میں پولیٹیکل سائنس کے ساتھ لاء کی تعلیم حاصل کی، لیکن میرا رجحان ہمیشہ ادب کی طرف رہا۔ والد صاحب نے کہا کہ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیجئے، اور میں نے سوچا کہ ادب ادب ہی ہے، چاہے اردو ہو یا انگریزی۔ اس سے مجھے اردو اور انگریزی ادب کا تقابلی مطالعہ کرنے کا وسیع موقع ملا اور خیالی وسعت پیدا ہوئی۔”

۳۔ آپ کے تعلیمی سفر نے آپ کی فکری تشکیل پر کیا اثر ڈالا؟
“تعلیمی سفر نے مجھے علم دیا، لیکن فکری تشکیل پر زیادہ اثر معاشرہ اور غیر نصابی مطالعے نے ڈالا۔ واصف علی واصف، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، اور دیگر ادبی شخصیات کے مطالعے سے میرے خیالات کے زاویے وسعت پائے۔ یہ مطالعہ مجھے سوچنے، سوال کرنے، اور معاشرتی محرکات کو سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔”

۴۔ کیا کوئی ایسی شخصیت یا کتاب تھی جس نے آپ کی ادبی سمت متعین کی؟
“میٹرک میں غالب کی شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا، ان کے افکار اور اظہار نے ادب کی طرف میرا لگاؤ بڑھایا۔ اس کے بعد فراز صاحب، بانو قدسیہ اور شیکسپیئر کے ڈراماز نے بھی میرے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا۔ ایک ٹیچر، سر ہمایوں مرزا، نے بھی ادب کی اہمیت اور گہرائی کو سمجھانے میں میرا بہت ساتھ دیا۔”

۵۔ آپ ادب کو ایک ذاتی مشغلہ سمجھتی ہیں یا اسے ایک سماجی خدمت کے طور پر دیکھتی ہیں؟
“ادب ایک ذاتی مشغلہ بھی ہے اور سماجی خدمت بھی۔ ذاتی طور پر یہ ہمیں احساس، شعور اور تخلیقی سکون دیتا ہے، اور سماجی طور پر یہ معاشرے کی ثقافت، سوچ اور تعلیم میں بہتری لاتا ہے۔ ادب کے ذریعے ہم اپنے معاشرے اور دنیا کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنی شناخت پیدا کر سکتے ہیں۔”

🔶 ریڈیو کی دنیا — آواز اور احساس کا امتزاج

۶۔ ریڈیو کی دنیا میں قدم رکھنے کا خیال کیسے پیدا ہوا؟
“ریڈیو کی محبت شاید بچپن سے تھی۔ اسکول اور کالج کے دنوں میں میں اکثر رات کو ریڈیو سنتی تھی۔ شاعری کی تقریبات اور کلاس کے دوران آناؤنسمنٹس کی مشق سے بھی ریڈیو کی دنیا قریب محسوس ہوتی تھی۔ پھر ایک حادثاتی موقع پر میں نے ریڈیو پاکستان میں اپنی سی وی دی اور آواز کا ٹیسٹ دیا، اور یوں میں ریڈیو سے جڑ گئی۔”

۷۔ پہلی بار مائیکروفون کے سامنے آنے کا تجربہ کیسا رہا؟
“پہلی بار مائیکروفون کے سامنے آنا شدید خوفزدہ کن تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور اعصاب شل ہو گئے تھے۔ لیکن جب میں نے پہلا فقرہ بولا: ‘السلام علیکم، آپ سُن رہے ہیں ریڈیو پاکستان ایبٹ آباد، میں آپ کی میزبان ارم مشتاق…’، تب مجھے ہمت ملی۔ اس دن کے بعد میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اور ریڈیو کے ساتھ میرا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔”

۸۔ ریڈیو کے تجربے نے آپ کی شخصیت اور سوچ میں کیا تبدیلی پیدا کی؟
“ریڈیو نے مجھے لوگوں سے زیادہ گھلنا ملنا، بات چیت کرنا اور موضوعات پر سوچنے کی صلاحیت دی۔ پروگرام کی تیاری کے دوران میں معاشرتی مسائل اور مفید موضوعات پر گہرائی سے غور کرتی ہوں۔ اس تجربے نے میری فکری وسعت بڑھائی اور مجھے ایک مضبوط، با اعتماد شخصیت بنایا۔”

۹۔ ایک آر جے کے طور پر آپ کے نزدیک سب سے اہم خوبی کیا ہے — آواز، الفاظ یا احساس؟
“احساس، الفاظ اور آواز تینوں لازمی ہیں۔ اگر احساس نہ ہو تو الفاظ اثر نہیں رکھتے، اور آواز کے بغیر یہ پیغام پہنچانا ممکن نہیں۔ یہ تینوں عناصر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ایک اچھے آر جے کی شناخت کے لیے ضروری ہیں۔”

۱۰۔ آپ کے خیال میں ریڈیو آج کے ڈیجیٹل دور میں کتنی اہمیت رکھتا ہے؟
“ریڈیو آج بھی بے حد اہم ہے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ ریڈیو بھی ویب اور پوڈکاسٹ کے ذریعے سماجی زندگی میں اپنا کردار برقرار رکھ رہا ہے۔ یہ ہمیشہ لوگوں تک معلومات، علم اور تفریح پہنچانے کا ذریعہ رہے گا۔”

۱۱۔ سامعین کے ساتھ آپ کا تعلق کیسا ہے؟ کیا آپ اُن کے فیڈ‌بیک کو اپنے پروگرامز میں شامل کرتی ہیں؟
“سامعین کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے۔ کچھ لوگ باقائدگی سے کالز کرتے ہیں، جیسے سیف الرحمان جدون لالہ کاکول سے اور عمران بھائی ۔ ان کی باتیں اور فیڈ‌ بیک پروگرام کا حصہ بنتی ہیں، اور یہ رشتہ مسلسل قائم رہتا ہے۔ لوگ ہمارے پروگرام کی کمی محسوس کرتے ہیں، یہ میرے لیے خوشی کا سبب ہے۔”

۱۲۔ ریڈیو کے ذریعے ادب اور معاشرتی شعور کو فروغ دینے کے لیے آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
“میں کوشش کرتی ہوں کہ ہر پروگرام میں ادب کا کوئی فن پارہ شامل ہو تاکہ وہ لوگ بھی سن سکیں جو پڑھنے کے قابل نہیں یا وقت نہیں نکال پاتے۔ ریڈیو کے ذریعے ہم شعور، علم اور معاشرتی بہتری کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔”

🔶 ادب، تخلیق اور فکری سمت

۱۳۔ آپ کے نزدیک ادب کا اصل مقصد کیا ہے — اظہارِ ذات، یا معاشرتی اصلاح؟
“ادب کا اصل مقصد دونوں ہے۔ یہ اظہارِ ذات اور شعور کے ذریعے معاشرتی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ قصے، کہانیاں اور شاعری ہمارے اندر کے انسانی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔”

۱۴۔ کیا آپ خود بھی تخلیق کرتی ہیں؟ اگر ہاں تو کن موضوعات پر زیادہ توجہ دیتی ہیں؟
“میں افسانے اور شاعری تخلیق کرتی ہوں، اور موضوعات میں انسانی احساسات، معاشرتی مسائل اور فکر کی عکاسی زیادہ ترجیحی ہوتی ہے۔”

۱۵۔ آپ کے خیال میں ایک اچھا ریڈیو پریزنٹر ایک اچھا قاری ہونا کیوں ضروری ہے؟
“اچھا قاری ہونے سے ہی آر جے اپنے الفاظ کے معنی کو سمجھ سکتا ہے، انہیں محسوس کر کے سامعین تک مؤثر انداز میں پہنچا سکتا ہے۔”

۱۶۔ جدید دور کے قاری اور سامع کے ذوق میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟
“آج کے نوجوان کے ذوق میں جلدی معلومات حاصل کرنے اور تیز رفتار مواد پسند کرنے کی عادت ہے، جبکہ پرانے قاری زیادہ غور و فکر اور تخیل کے ذریعے ادب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔”

۱۷۔ آپ کی نظر میں ادب اور میڈیا کا تعلق کس طرح ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے؟
“ریڈیو اور میڈیا کے ذریعے ادب کو زیادہ لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے، اور ادب کی وساطت سے میڈیا کو گہرائی، شعور اور ثقافتی اثر ملتا ہے۔”

۱۸۔ کیا آپ کے نزدیک ادب ایک زندہ روایت ہے یا اب صرف نصابی حصار میں محدود ہوتا جا رہا ہے؟
“ادب ایک زندہ روایت ہے، جو نصاب سے باہر بھی معاشرے میں موجود ہے۔ ریڈیو، تقریبات اور ادبی محافل اس روایت کو قائم رکھنے کے بہترین ذرائع ہیں۔”

۱۹۔ آج کے نوجوان لکھاریوں کے لیے آپ کے نزدیک سب سے اہم سبق کیا ہے؟
“نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خیالات پر اعتماد کریں، تخلیق میں مستقل مزاجی اختیار کریں اور ادب کو صرف تفریح نہیں بلکہ شعور اور سماجی خدمت کے لیے استعمال کریں۔”

🔶 خواتین، معاشرہ اور شناخت

۲۰۔ بطور خاتون، میڈیا کے میدان میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
“میڈیا میں خاتون ہونے کے ناطے تجربہ مثبت رہا۔ مجھے لوگ عزت اور پیار سے سنتے ہیں، اور اپنے کام میں خود اعتمادی حاصل کرنے کا موقع ملا۔”

۲۱۔ خواتین لکھاریوں اور براڈ کاسٹرز کو کن عملی مشکلات کا سامنا ہے؟
“وقت کی قلت، سماجی دباؤ اور موقعوں کی محدودیت خواتین کے لیے چیلنجز ہیں، لیکن محنت، جذبہ اور علم کے ذریعے یہ سب قابل حل ہیں۔”

۲۲۔ خواتین کے لیے ریڈیو اور ادب کس طرح ایک باوقار شناخت کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟
“ریڈیو اور ادب خواتین کو اپنے خیالات اور احساسات کے اظہار کا پلیٹ فارم دیتے ہیں، اور ان کی سماجی شناخت مضبوط کرتے ہیں۔”

۲۳۔ کیا موجودہ معاشرہ خواتین کے تخلیقی اظہار کے لیے زیادہ قبولیت رکھتا ہے؟
“ہاں، پچھلے برسوں میں خواتین کے کام کو زیادہ سراہا جا رہا ہے، اور مواقع بڑھ رہے ہیں، لیکن ابھی بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔”

۲۴۔ آپ کی نظر میں ایک عورت کی کامیابی کا اصل پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟
“اپنی شناخت کے ساتھ دوسروں پر مثبت اثر ڈالنا، علم اور احساس کے ذریعے معاشرت میں بہتری لانا کامیابی کا اصل پیمانہ ہے۔”

🔶 حلقہ اربابِ سخن ہزارہ ڈویژن

۲۵۔ بطور مرکزی صدر حلقہ اربابِ سخن، آپ کے بنیادی اہداف اور منصوبے کیا ہیں؟
“میرا مقصد اردو ادب کو فروغ دینا، نوجوان شعرا و ادبا کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنا اور ادبی محافل کے ذریعے معاشرت میں شعور پیدا کرنا ہے۔”

۲۶۔ ہزارہ ڈویژن کے ادبی منظرنامے کو آپ کس زاویے سے دیکھتی ہیں؟
“یہ علاقہ ادبی طور پر بہت حساس اور تخلیقی ہے۔ نوجوان شعرا اور ادبا کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔”

۲۷۔ نوجوان شعرا و ادبا کے لیے آپ کس طرح کے پلیٹ فارم فراہم کرنا چاہتی ہیں؟
“میں ادبی مقابلے، ورکشاپس، سیمینارز اور ریڈیو پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کو موقع دینا چاہتی ہوں کہ وہ اپنے خیالات اور تخلیق کو پیش کر سکیں۔”

۲۸۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ادبی تنظیموں کا کردار وقت کے ساتھ مزید اہم ہو گیا ہے؟
“ہاں، آج کے معاشرے میں ادبی تنظیمیں نوجوانوں کی تربیت اور ادب کی ترویج میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔”

۲۹۔ ادب اور ثقافت کے فروغ میں اجتماعی کوششیں کس طرح زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں؟
“اجتماعی کوششوں سے وسائل، علم اور تجربات کو شیئر کیا جا سکتا ہے، جس سے اثر زیادہ وسیع اور دیرپا ہوتا ہے۔”

🔶 روحانیت، احساس اور زندگی کا فلسفہ

۳۰۔ زندگی کی خوبصورتی کہاں پوشیدہ ہے — خاموشی میں، لفظ میں یا تعلق میں؟
“زندگی کی خوبصورتی سب میں پوشیدہ ہے — خاموشی میں سکون، لفظ میں اظہار اور تعلق میں ہم آہنگی۔”

۳۱۔ کیا ادب انسان کو روحانی طور پر بھی بہتر بناتا ہے؟
“جی ہاں، ادب انسان کے اندر شعور، احساس اور ہمدردی پیدا کرتا ہے، جو روحانی بہتری کا سبب بنتی ہے۔”

۳۲۔ جب آپ ذہنی دباؤ یا الجھن محسوس کرتی ہیں تو آپ کا سہارا کیا ہوتا ہے؟
“میں دعا، مطالعہ اور خاموشی میں سکون تلاش کرتی ہوں۔ یہ تینوں طریقے میرے لیے تسکین اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔”

۳۳۔ آپ کے خیال میں ایک تخلیق کار کے لیے احساس کا گہرا ہونا ضروری ہے؟
“جی ہاں، احساس کے بغیر تخلیق بے اثر ہوتی ہے۔ جو احساس سے بولتا اور لکھتا ہے، اس کا کام دوسروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔”

۳۴۔ اگر آپ اپنی زندگی کو ایک جملے میں سمیٹنا چاہیں تو وہ کیا ہوگا؟
“زندگی، الفاظ اور احساس کے ذریعے دنیا کو بہتر بنانے کا سفر ہے۔”

🔶 اختتامی پہلو

**۳۵۔ نوجوان ریڈیو پریزنٹرز اور لکھنے والوں کے لیے آپ کا پیغام کیا ہے؟
“نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خیالات اور جذبات پر اعتماد کریں اور تخلیق میں مستقل مزاج رہیں۔ ریڈیو اور ادب کے شعبے میں قدم رکھنے سے پہلے اپنی تیاری مکمل کریں، موضوعات پر گہرائی سے غور کریں اور علم حاصل کرنے کی جستجو رکھیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے الفاظ میں صداقت اور احساس ہو — یہی چیز سامعین یا قاری کے دل تک پہنچتی ہے۔ ریڈیو یا لکھنے کے لیے صرف بولنا یا لکھنا کافی نہیں، بلکہ سوچ اور شعور کی بنیاد پر کام کرنا ضروری ہے۔ میری خواہش ہے کہ نوجوان تخلیق کار اپنے کام کے ذریعے معاشرے میں مثبت اثر ڈالیں اور اپنی آواز کو قابلِ سماعت اور معنی خیز بنائیں۔”

۳۶۔ آپ مستقبل میں ارم مشتاق کو کہاں دیکھنا چاہتی ہیں — ایک معروف آر جے، ادیبہ، یا رہنمائے ادب کے طور پر؟
“میں چاہتی ہوں کہ میں اپنے فنی اور ادبی سفر میں توازن برقرار رکھوں۔ بطور آر جے، میں اپنی آواز کے ذریعے معاشرتی شعور اور علم پہنچانا چاہتی ہوں، اور بطور ادیبہ، میں ادب کے ذریعے انسانی احساسات اور فکر کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔ مستقبل میں میرا مقصد یہی ہے کہ میں رہنمائے ادب بن کر نئی نسل کو رہنمائی فراہم کر سکوں، تاکہ وہ بھی اپنے الفاظ، آواز اور احساس کے ذریعے معاشرت میں مثبت اثر ڈال سکیں۔”

۳۷۔ اگر آپ کو موقع ملے کہ آپ اپنی آواز سے کوئی ایک پیغام پوری دنیا تک پہنچا سکیں، تو وہ کیا ہوگا؟
“میرا پیغام یہ ہوگا کہ علم اور احساس ہی انسانیت کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اپنے دل کی سنیں، دوسروں کے دکھ کو سمجھیں، اور الفاظ کو ہتھیار نہ بلکہ پل کے طور پر استعمال کریں۔ اگر ہم سب اپنے الفاظ اور اعمال میں نیکی، شعور اور محبت لائیں تو دنیا ایک بہتر مقام بن سکتی ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں