سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے خلیات سے چلنے والا کمپیوٹر تیار کرنے کی ٹھان لی

سوئٹزرلینڈ میں سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے خلیات سے چلنے والے کمپیوٹر تیار کرنے کا تجربہ شروع کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دماغی خلیوں سے بنے پروسیسر وہ چِپس بدل سکتے ہیں جو آج مصنوعی ذہانت (AI) کو طاقت دے رہے ہیں۔

سوئس اسٹارٹ اپ کمپنی فائنل اسپارک کے شریک بانی فریڈ جارڈن کے مطابق روایتی کمپیوٹر انسانی دماغ کے نیورونز اور نیٹ ورکس کی نقل بناتے ہیں، لیکن اب سائنسدانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ نقل کے بجائے اصل خلیوں کو ہی استعمال کیا جائے۔
فریڈ جارڈن کا کہنا ہے کہ حیاتیاتی نیورونز، مصنوعی نیورونز کے مقابلے میں 10 لاکھ گنا زیادہ توانائی مؤثر ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے توانائی کے بحران کا حل ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان خلیوں کو لیبارٹری میں بار بار پیدا کیا جاسکتا ہے، جب کہ چِپس کی عالمی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

فائنل اسپارک انسانی جلد کے خلیات سے سٹیم سیلز خریدتی ہے، جنہیں لیبارٹری میں نیورونز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ پھر انہیں ملی میٹر سائز کے چھوٹے دماغی جھرمٹوں (برین آرگنوئیڈ) کی شکل میں جمع کیا جاتا ہے، جن کا سائز تقریباً ایک مکھی کے لاروا کے دماغ کے برابر ہوتا ہے۔

ان آرگنوئیڈز پر الیکٹروڈ لگائے جاتے ہیں تاکہ سائنسدان ان کے اندرونی سگنلز کی نگرانی کر سکیں، اور چھوٹے برقی جھٹکوں کے ذریعے ان کے ردِ عمل کو جانچ سکیں، جو کمپیوٹنگ میں ’0‘ اور ’1‘ کے برابر تصور کیے جاتے ہیں۔
فائنل اسپارک کے مطابق دنیا کی 10 جامعات ان کے آرگنوئیڈز پر تحقیق کر رہی ہیں، اور کمپنی کی ویب سائٹ پر ان خلیوں کی سرگرمی براہِ راست دیکھی جا سکتی ہے۔

برطانیہ کی بریسٹل یونیورسٹی کے محقق بینجمن وارڈ شیریر نے ایک آرگنوئیڈ کو ایک روبوٹ کا دماغ بنایا جو مختلف بریل حروف کی پہچان کرنے کے قابل ہو گیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا کو اس انداز میں انکوڈ کرنا کہ دماغی خلیے اسے سمجھ سکیں، سب سے مشکل مرحلہ ہے۔

انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ روبوٹ کے ساتھ کام کرنا ان خلیوں کے مقابلے میں بہت آسان ہے، کیونکہ یہ جیتے جاگتے خلیے ہیں اور آخرکار مر جاتے ہیں۔ وارڈ شیریر کا کہنا ہے کہ ان کے تجربے کے دوران ایک آرگنوئیڈ مر گیا، جس کے بعد ٹیم کو نیا تجربہ شروع کرنا پڑا۔

فائنل اسپارک کے مطابق ایک آرگنوئیڈ 6 ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔

امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں لینا اسمیرنووا انہی آرگنوئیڈز کو استعمال کر کے آٹزم اور الزائمر جیسی دماغی بیماریوں پر تحقیق کر رہی ہیں، تاکہ نئی ادویات کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن اگلے 20 برسوں میں حیاتیاتی کمپیوٹنگ (biocomputing) ٹیکنالوجی میں انقلابی پیش رفت ممکن ہے۔

جہاں تک ان آرگنوئیڈز کے ’شعور‘ حاصل کرنے کے امکان کا تعلق ہے، تمام ماہرین اس خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ فریڈ جارڈن کا کہنا ہے کہ یہ خلیے نہ تو درد محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی آگاہی رکھتے ہیں، کیونکہ ان میں صرف 10 ہزار نیورونز ہوتے ہیں، جب کہ انسانی دماغ میں تقریباً 100 ارب نیورونز پائے جاتے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جب لیبارٹری کا انکیوبیٹر کھولا جاتا ہے تو یہ خلیے اچانک متحرک ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی معروف طریقہ نہیں کہ دروازہ کھولا گیا ہے۔ فریڈ جارڈن کے مطابق وہ اب تک نہیں سمجھ پائے کہ یہ خلیے اس تبدیلی کا احساس کیسے کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں