کیا اے آئی انسانی یادداشت کو آہستہ آہستہ مٹا رہی ہے؟

مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث انسانی دماغ کو یادداشت اور تنقیدی سوچ میں کمی کا مسئلہ نمایاں ہو گیا ہے۔ جدید دور میں جہاں اے آئی اور ڈیجیٹل آلات زندگی کو آسان بنانے میں مدد دے رہے ہیں، وہاں انسانی ذہن پر انحصار بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ ضروری معلومات یاد رکھنے اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔

مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اے آئی پر زیادہ انحصار کرنے سے دماغی مشقوں میں کمی آ رہی ہے، جو کہ تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔

تعلیم کے شعبے میں بھی اس مسئلے کا اثر نظر آ رہا ہے۔ تعلیم کے روایتی طریقے جو طلباء کی ذہنی مشق اور یادداشت کو فروغ دیتے تھے، ان کی بجائے اب اے آئی اور دیگر تکنیکی آلات پر زیادہ انحصار کیا جانے لگا ہے۔ اس کی وجہ سے طلباء کی یادداشت، معلومات کو یاد رکھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے، جو کہ آگے جا کر ان کی تنقیدی سوچ کی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام کو اس طرح ڈھالنا ہوگا کہ اے آئی کو ایک معاون کے طور پر استعمال کیا جائے نہ کہ ذہنی صلاحیتوں کی جگہ لے لے۔ یادداشت، بار بار معلومات کو دہرانا اور ذہنی مشق کو لازمی سمجھ کر تدریسی نظام میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ بچوں کی ذہنی نشونما برقرار رہے۔

مزید یہ کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی کبھی بھی انسانی دل کی گہرائیوں میں بسنے والی خداداد خصوصیات جیسے ہمدردی، تخلیقیت اور عبادت کی صلاحیت کی نقل نہیں کر سکتا۔ اے آئی ہماری فکری صلاحیتوں کو مکمل طور پر نہیں لے سکتا کیونکہ انسانی دماغ کی سوچ، ادراک اور تجزیہ کی طاقت منفرد ہے، جو مشینوں میں ممکن نہیں۔

انسانی یادداشت محض حقائق محفوظ کرنے کا نام نہیں ہے۔ ہمارا دماغ ہر یادداشت میں جذبات، تجربات اور حواس کو بُنتا ہے۔ بچپن کے کسی پسندیدہ کھانے کو یاد کریں، یہ صرف کھانے کی چیزوں کو یاد کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ باورچی خانے کی خوشبو، کھانے کی میز پر ہنسی، اور اس لمحے کی گرم جوشی کو یاد کرنے کا نام ہے۔ یہ جذباتی گہرائی ایسی چیز ہے جسے کوئی مشین دہرا نہیں سکتی۔

اس کے باوجود، یادداشت کے انداز میں تبدیلی آ رہی ہے کیونکہ اب ہم ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ علمی سائنس کی تحقیقات نے ’گوگل ایفیکٹ‘ یا ’ڈیجیٹل ایمنیشیا‘ کی اصطلاح وضع کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ معلومات ان کے آلات پر آسانی سے دستیاب ہیں، تو وہ خود اسے یاد رکھنے کی کوشش کم کرتے ہیں۔

ماہرین نے ’علمی تکمیل‘ کا تصور پیش کیا ہے، جس میں انسانی دماغ کی گہری سمجھ اور اے آئی کی صلاحیتوں کو ملا کر کام کیا جائے تاکہ اے آئی کی پیش کردہ معلومات کو بہتر انداز میں سمجھا اور استعمال کیا جا سکے۔چنانچہ ضروری ہے کہ انسان اپنی یادداشت اور فکری مشق کو برقرار رکھے تاکہ اے آئی کی مدد سے بہتر فیصلے کیے جا سکیں اور ذہنی صلاحیتوں کی کمی کو روکا جا سکے۔

برطانوی ماہر تعلیم کارل ہینڈرک کا کہنا ہے، ’سب سے جدید اے آئی آپ کی نقل کر سکتا ہے، لیکن آپ کے لیے سوچ نہیں سکتا۔ یہ کام مسلسل اور شاندار طریقے سے انسان کا ہی ہے۔‘

اس تیز رفتاری سے بدلتی دنیا میں، انسانی دماغ کی یادداشت، پیٹرن پہچاننے اور عمیق سوچ کی صلاحیتیں بدستور ناگزیر ہیں۔ انہی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا آج کی معلوماتی دنیا میں کامیابی کی کنجی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں