آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران اسلام آباد پولیس نے نیشنل پریس کلب میں زبردستی داخل ہو کر کیفے ٹیریا میں توڑ پھوڑ کی اور صحافیوں پر تشدد کیا۔
نیشنل پریس کلب صحافیوں کا نمائندہ ادارہ ہے اور اس کی حدود میں پولیس کا داخل ہونا ایک تشویشناک اقدام قرار دیا جا رہا ہے، جس پر صحافتی تنظیموں نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
نادر بلوچ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اسلام آباد پولیس آپے سے باہر! پریس کلب کا تقدس پامال، دروازے پھلانگ کر کیفے ٹیریا میں دھاوا، صحافیوں پر تشدد اور گرفتاریاں۔
خرم اقبال نے لکھا کہ اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا، لاٹھیاں برسائیں، پریس کلب کے تقدس کی پامالی کی یہ بھی تاریخ رقم ہو گئی، صدر اور سیکرٹری پریس کلب کہاں ہیں؟
ثاقب ورک لکھتے ہیں کہ موجودہ دور حکومت میں پریس کلب بھی محفوظ نہیں رہے، نیشنل پریس کلب جس سے کشمیری جرنلسٹس کی ایک بڑی تعداد کی وابستگی ہے وہاں پولیس گردی انتہائی افسوسناک ہے۔
رضوان غلزئی نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں پولیس اہلکاروں کو ایک صحافی کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے غنڈے پریس کلب کیفے ٹیریا میں گھس کر کشمیری صحافی راجہ رخسار کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کا دھاوا انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے، یہ واقعہ پریس کلب کی انتظامیہ کی نااہلی اور بزدلی کا ثبوت ہے۔ پریس کلب صحافیوں کا گھر ہے جہاں پولیس کا ڈنڈوں کیساتھ کیفیٹیریا میں لوگوں پر لاٹھیاں برسانا شرمناک ہے۔
حزب اختلاف کے سینیٹر علامہ راجا ناصر عباس نے کہا ہے کہ اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر پولیس کے وحشیانہ حملے، توڑ پھوڑ اور صحافیوں پر بہیمانہ تشدد کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ آزادیٔ صحافت پر یوں ریاستی طاقت کا استعمال نہ صرف آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ جمہوری اقدار کے گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ پریس کلب اور صحافی برادری پر ہاتھ اٹھانا دراصل عوام کی آواز کو دبانے کی ناپاک کوشش ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
