ملازمت کی تلاش میں پاکستانی اور بھارتی شہری سرفہرست

برطانیہ میں ملازمتوں کی تلاش کرنے والوں میں پاکستانی اور بھارتی باشندے سرفہرست ہیں، جہاں سے سب سے زیادہ ملازمتیں تلاش کی گئی ہیں۔

برطانیہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک سے ملازمتوں کی تلاش کرنے والوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بریگزٹ کے بعد جزوی طور پر ورک ویزا کے قوانین میں نرمی کی گئی ہے۔

اس پرغور کرنے پر معلوم ہوا کہ جون میں انڈیڈ کی ویب سائٹ پر برطانوی ملازمتیں تلاش کرنے والے 5.5 فیصد افراد برطانیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے، یہ تعداد ایک سال قبل 4.4 فیصد تھی اور2017 سے 2019 کے درمیان 3.6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق انڈیڈ کے یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے ریسرچ ڈائریکٹر پاول ایڈرجان کا کہنا ہے غیر یورپی ممالک کے افراد کی جانب سے سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ جیسی ملازمتوں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ برطانوی حکومت کی نئی امیگریشن پالیسی حسب منشا کام کررہی ہے۔

جون میں برطانیہ میں ملازمتیں تلاش کرنے والوں میں یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے افراد کا حصہ 1.4 فیصد رہا، جو بریگزٹ سے پہلے کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ دوسرے ممالک کی دلچسپی بڑھ کر4.1 فیصد ہوگئی ہے۔

انڈیڈ کی ویب سائٹ نے پاکستان، بھارت، نائجیریا اور جنوبی افریقہ کا شمار ان اہم ممالک میں کیا ہے، جہاں سے سب سے زیادہ ملازمتیں برطانیہ میں تلاش کی گئیں۔

بینک آف انگلینڈ نے مزدوروں کی کمی پر توجہ کی ہے، کیونکہ مہنگائی میں حالیہ کمی کے باوجود اجرت میں اضافے کی شرح 20 سالوں کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

بریگزٹ کے بعد برطانوی حکومت نے یورپی یونین کے زیادہ تر شہریوں کے برطانیہ جانے کے غیرمحدود حق کو مرحلہ بہ مرحلہ ختم کر دیا ہے۔

ویزا قوانین میں نرمی کے بعد اب مالکان کو یہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ کسی برطانوی یا یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ورکر کو ملازمت پر رکھنے سے قاصر ہیں۔ بشرطیکہ وہ ایسی ملازمت کے لیے ہوں جس کی سالانہ آمدن کم از کم 26 ہزار 200 پاؤنڈز ہو، جو برطانیہ کی اوسط سالانہ اجرت سے قدرے کم ہے۔

کم تنخواہ والے ملازم ان شعبوں میں ویزا حاصل کرسکتے ہیں جہاں لیبر کی شدید کمی ہے جس میں زیادہ تر صحت اور سماجی دیکھ بھال کے شعبے شامل ہیں۔

واضح رہے کہ ہاسپٹیلٹی اور مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کے کم تنخواہ والے شعبوں میں مالکان اب بیرون ملک سے ملازمین بھرتی کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں