ڈاکٹر ایمان قیصرانی سے خصوصی انٹرویو
مرتبہ: عامر عباس ناصر اعوان، ایبٹ آباد، خیبر پختونخوا
—
سوال: آپ کا تعلق دامان اور قیصرانی بلوچ قبیلے سے ہے۔ یہ نسبت آپ کی شخصیت اور شاعری کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟
ڈاکٹر ایمان قیصرانی: قیصرانی بلوچ ہونا میرے لئے فخر کی بات ہے۔ یہ نسبت بہادری، غیرت اور روایت کا استعارہ ہے۔ میرے والد بشیر احمد عاجز قیصرانی نے مجھے لفظوں سے محبت دی۔ میری شاعری میں دامان کی خوشبو اور میرے قبیلے کی رُوح جھلکتی ہے۔
📖
> دامان کی خوشبو ہر لفظ میں بسی ہے
میں قبیلے کی بیٹی ہوں، غزلوں میں جھلکتی ہوں
—
سوال: اگر دامان کی دھرتی آپ سے ہمکلام ہو تو آپ کے خیال میں وہ کیا کہے گی؟
ڈاکٹر ایمان: وہ مجھے کہے گی کہ ایمان، تو نے میرے دکھوں کو غزل کے لہجے میں ڈھالا اور میری بہادری کو اشعار میں زندہ رکھا۔
—
سوال: ذاتی زندگی کے نشیب و فراز نے آپ کی شخصیت کو کیسے بدلا؟
ڈاکٹر ایمان: دکھ اور زخموں نے مجھے زیادہ مضبوط بنایا ہے۔ جدائی نے میرے لہجے کو گہرا اور دعا نے میرے لفظوں کو روشن کیا۔
📖
> زخم نے دیا لفظوں کو گہرائی
دعا نے دکھ کو روشنی بنادیا
—
سوال: اگر آپ کی زندگی کو ایک غزل کا عنوان دیا جائے تو وہ کیا ہوگا؟
ڈاکٹر ایمان: “ادھورا خواب، مکمل دعا”۔
—
سوال: آپ کا تدریسی سفر رحیم یار خان سے فیصل آباد اور پھر منہاج یونیورسٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سفر سے سب سے بڑی سیکھ کیا ملی؟
ڈاکٹر ایمان: علم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عاجزی سب سے بڑی دولت ہے۔ سیکھنے اور سکھانے کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
—
سوال: سعودی عرب میں تدریس کے دوران پانچ مرتبہ گولڈ میڈل آپ کے حصے میں آئے۔ اس کامیابی کو آپ کس راز سے منسوب کرتی ہیں؟
ڈاکٹر ایمان: خلوص اور محنت۔ جب استاد دل سے پڑھاتا ہے تو علم براہِ راست شاگرد کے دل میں اترتا ہے۔
—
سوال: اپنے شاگردوں کے لئے آپ کا پیغام کیا ہے؟
ڈاکٹر ایمان: ڈگری سے زیادہ کردار کی تعمیر ضروری ہے۔ علم وہی ہے جو انسان کو انسان بنائے۔
—
سوال: آپ کی شاعری میں خواب اور زخم دونوں جھلکتے ہیں۔ ان میں سے کون زیادہ اثر انداز ہوتا ہے؟
ڈاکٹر ایمان: اکثر زخم ہی خواب کو جنم دیتے ہیں۔ میرے کئی مصرعے ایسے ہیں جو رات بھر مجھے جگائے رکھتے ہیں۔
📖
> نیند آنکھوں میں آ کر بھی ٹک نہ سکی
خواب لفظوں میں ڈھلنے کو مچلتے رہے
—
سوال: آپ کے نئے شعری مجموعے “عشق زار” میں کیا نیا ہے؟
ڈاکٹر ایمان: “عشق زار” میں محبت زیادہ پختہ ہے، دکھ زیادہ گہرا ہے اور مزاحمت زیادہ توانا۔ قاری کو ایک نئی ایمان قیصرانی ملے گی۔
—
سوال: نسوانی شعور آپ کی شاعری میں بار بار جھلکتا ہے۔ آپ اسے کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر ایمان: عورت کی خاموشی بھی بغاوت ہے اور اس کی دعا بھی مزاحمت۔ عورت کا قلم محبت میں بھی طاقتور ہے اور مزاحمت میں بھی۔
—
سوال: آپ کی شاعری میں کافی اور چائے بار بار بطور علامت آتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر ایمان: کافی کی تلخی اور جاگنے کی طاقت میرے لہجے سے جڑی ہوئی ہے۔ میری شاعری بھی کچھ ایسی ہی ہے—تلخ مگر بیدار کرنے والی۔
📖
> کافی کی تلخی نے جاگتے رکھا مجھے
لفظ جاگے، غزلوں میں روشنی اتری
—
سوال: آپ اپنی کامیابیوں کو کس کا مرہونِ منت سمجھتی ہیں؟
ڈاکٹر ایمان: میری ماں کی دعائیں۔ وہ میری سب سے بڑی طاقت ہیں۔
سوال: شاعری کی اصل ذمہ داری آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ڈاکٹر ایمان: شاعری کا کام روح کو جگانا اور درد کو روشنی میں بدل دینا ہے۔
—
سوال: خواتین شاعراؤں کے لئے اردو ادب میں آپ کیا امکانات دیکھتی ہیں؟
ڈاکٹر ایمان: مواقع ہیں مگر چیلنجز بھی ہیں۔ لیکن یہ رکاوٹیں زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتیں۔ عورت کا قلم اپنی جگہ ضرور بنا لیتا ہے۔
–
سوال: اگر آپ شاعرہ نہ ہوتیں تو کون سا فن اپناتیں؟
ڈاکٹر ایمان: شاید مصورہ یا کہانی نویس بنتی، لیکن سچ یہ ہے کہ لفظ میرا مقدر تھے۔
—
سوال: آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟
ڈاکٹر ایمان: یہ کہ میرا ایک شعر بھی آنے والی نسلوں کے دل میں زندہ رہے۔
📖
> شعر وہی ہے جو سانسوں میں اتر جائے
لفظ وہی ہے جو صدیوں تک جیے
سوال: اگر آپ کی شاعری کو خوشبو میں قید کیا جائے تو وہ کون سی ہوگی؟
ڈاکٹر ایمان: چنبیلی کی خوشبو—دیرپا، نرم اور شام کے سکوت میں دل کو چھو لینے والی۔
📖
> چنبیلی کی مہک سی ہے میری غزل کا لہجہ
خاموش شام میں دل کو چھو لینے والا
—
سوال: اگر قلم نہ ہوتا تو دل کی بات کیسے کہتیں؟
ڈاکٹر ایمان: خاموشی کو لفظوں میں ڈھال دیتی۔ خاموشی بھی گفتگو ہے۔
—
سوال: زندگی کو تین لفظوں میں بیان کریں؟
ڈاکٹر ایمان: دعا، محبت، سفر۔
—
سوال: وصل یا جدائی—اگر انتخاب کا وقت آئے تو؟
ڈاکٹر ایمان: جدائی۔ کیونکہ جدائی کی آنچ ابدی ہے۔
📖
> وصل کی خوشبو لمحے میں بکھر جاتی ہے
جدائی کا زہر صدیوں میں امر ہوتا ہے
—
سوال: اگر آپ کے اشعار بولنے لگیں تو کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر ایمان: وہ کہیں گے: “ہم تیرے دل کے راز ہیں، ہمیں سنبھال کر رکھنا۔”
—
سوال: عورت کی سب سے بڑی طاقت کیا ہے؟
ڈاکٹر ایمان: صبر۔ یہی طاقت خواب کو جنم دیتی ہے اور دعا کو مزاحمت میں بدل دیتی ہے۔