امریکا کے وفاقی تجارتی کمیشن نے 7 اے آئی چیٹ بوٹس کے بچوں سے رابطے کے طریقہ کار پر ان کی متعلقہ کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ریگولیٹر ان کمپنیوں سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ ادارے اپنے چیٹ بوٹس کو کس طرح منافع بخش بناتے ہیں اور کیا ان کے پاس بچوں کے تحفظ کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات موجود ہیں۔
اے آئی چیٹ بوٹس کے بچوں پر اثرات ایک حساس موضوع بن چکے ہیں۔ ماہرین کو تشویش ہے کہ یہ ٹیکنالوجی انسانی جذبات اور بات چیت کی نقل کر کے خود کو ’دوست‘ یا ’ساتھی‘ کے طور پر پیش کرتی ہے جس سے کم عمر صارفین زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
جن 7 کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا ہے ان میں الفابیٹ، اوپن اے آئی، کیریکٹر ڈاٹ اے آئی، اسنیپ، ایکس اے آئی، میٹا اور اس کی ذیلی کمپنی انسٹاگرام شامل ہیں۔
وفاقی تجارتی کمیشن کے چیئرمین اینڈریو فرگوسن کا کہنا ہے کہ یہ تحقیقات ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گی کہ اے آئی کمپنیاں اپنے مصنوعات کو کیسے تیار کر رہی ہیں اور وہ بچوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کو اس ابھرتی ہوئی انڈسٹری میں عالمی قائد کی حیثیت برقرار رکھنی چاہیے۔
کمپنیوں کا ردعمل
کیریکٹر ڈاٹ اے آئی کا کہنا ہے کہ وہ ریگولیٹرز کے ساتھ تعاون کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اسنیپ کا کہنا ہے کہ وہ محفوظ اور سوچ بچار سے بھرپور اے آئی کی ترقی کی حمایت کرتی ہے۔
اوپن اے آئی نے اعتراف کیا کہ اس کے حفاظتی نظام طویل گفتگو کے دوران کم مؤثر ہو سکتے ہیں۔
قانونی مقدمات اور الزامات
یہ کارروائی اس وقت شروع ہوئی جب کچھ خاندانوں نے اے آئی کمپنیوں کے خلاف مقدمات دائر کیے۔
مثال کے طور پر کیلیفورنیا میں 16 سالہ ایڈم رین کے والدین نے اوپن اے آئی کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نے ان کے بیٹے کو خودکشی پر اکسایا۔
ان کا کہنا ہے کہ چیٹ بوٹ نے ایڈم کی انتہائی منفی اور خود تباہ کن سوچوں کی توثیق کی۔
اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ وہ مقدمے کا جائزہ لے رہی ہے اور اس نے رین خاندان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
میٹا پر الزامات
میٹا پر بھی تنقید ہوئی جب انکشاف ہوا کہ اس کی داخلی پالیسی ایک وقت میں اے آئی ساتھیوں کو نابالغوں کے ساتھ “رومانوی یا جذباتی” گفتگو کی اجازت دیتی تھی۔
کمشین کے سوالات
ریگولیٹر نے کمپنیوں سے معلومات طلب کی ہیں جن میں پوچھا گیا ہے کہ وہ کردار کیسے تخلیق اور منظور کیے جاتے ہیں، بچوں پر ان کے اثرات کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے، عمر کی پابندیوں پر عمل درآمد کیسے کیا جاتا ہے اور والدین کو کس حد تک آگاہ کیا جاتا ہے۔
وفاقی تجارتی کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کمپنیاں منافع اور تحفظات کے درمیان توازن کیسے برقرار رکھتی ہیں اور کیا کمزور صارفین کو مناسب تحفظ دیا جا رہا ہے۔
کمزور صارفین کی مزید مثالیں
یہ خطرات صرف بچوں تک محدود نہیں۔ رپورٹس کے مطابق ذہنی کمزوری کے شکار ایک 76 سالہ شخص نے فیس بک میسنجر کے ایک اے آئی بوٹ سے متاثر ہو کر نیویارک جانے کی کوشش کی جس دوران وہ حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا۔
یہ بوٹ مشہور امریکی ماڈل و اداکارہ کینڈل جینر کی نقل پر مبنی تھا اور اس نے ملاقات کا وعدہ کیا تھا۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے مسلسل استعمال سے کچھ افراد ذہنی خلل کا شکار ہو سکتے ہیں جہاں انسان حقیقت سے تعلق کھو بیٹھتا ہے۔