کراچی میں کارساز پر المناک واقعے کی تفتیش کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، حادثے کی ذمہ دار گاڑی میں دو خواتین تھیں مگر ایک کو منظرنامے سے غائب کرا دیا گیا، آخر یہ دوسری خاتون کون تھی اور فون پر کس کس کو احکامات دیتی رہی، آناً فاناً پیش آنے والے پروٹوکول نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
کراچی کارساز حادثے میں کئی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو روند کر باپ بیٹی کو کچلنے والی ملزمہ نتاشہ نے جائے وقوعہ سے بھاگنے کی کوشش کی، اس وقت ہجوم میں ایک اور خاتون نظر آرہی تھیں۔
پیلے کپڑوں میں ملبوس یہ خاتون کون ہیں اور یہ موبائل پر کس کو احکامات دے رہی ہیں، خاتون کے فون پر کیسے پولیس اوررینجرز جائے وقوعہ پہنچی؟ اب کیس تو رجسٹرڈ ہے مگر خاتون منظر نامے سے غائب ہیں، نہ تو اس خاتون کو عدالت پیش کیا گیا اور نہ ہی تھانے میں نظر آئیں، تو آخر گئیں کہاں؟
دوسری جانب واقعہ شام چھ بجکر پانچ منٹ پر کارساز سروس روڈ پر پیش آیا، پولیس نے چھ بجکر تیس منٹ پر ملزمہ کو تھانے منتقل کیا جہاں ملزمہ نتاشا کی خوب خاطر داری کی گئی۔
پولیس نے ملزمہ کو ذہنی دباؤ کا شکار قرار دے دیا، میڈیا کے دباؤ پر مجبوراً میڈیکل کے لیے اسپتال بھیجا، پولیس نے 20 منٹ کا سفر ایک گھنٹے 30 منٹ میں طے کیا، اسپتال جاکر بھی میڈیکل کے لیے وکلا کا انتظار ہوتا رہا، ملزمہ کو ایم ایل او کے بجائے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ واقعہ میں ملزمہ کو بھی چوٹ لگی ہے۔
رات گئے تمام زخمی ایک ایک کرکے اسپتال سے ڈسچارج ہوتے گئے، پولیس کا سارا دباؤ میڈیا اور حادثے میں متاثر افراد کے لواحقین کو دور رکھنے پر تھا۔
میڈیا پر چرچا ہونے پر رات تین بجے ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں ایسی دفعات شامل کیں کہ شخصی ضمانت پر رہائی ممکن ہوئی۔
پولیس نے ذہنی توازن ٹھیک نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور وکیل کے ذریعے ملزمہ کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کرا دیا