مشہور انتظامی مشاورتی فرم ‘بین اینڈ کمپنی’ نے اپنی تازہ تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) بلاشبہ میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بدل رہی ہے لیکن ابھی یہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں کا متبادل نہیں بن سکی۔
رپورٹ کے مطابق مواد بنانے اور اس سے آمدنی کمانے کے طریقے بدل رہے ہیں لیکن انسانوں کی تخلیقیت سے تیار ہونے والا مواد اب بھی سب سے اہم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمازون نے کِنڈل پر روزانہ شائع ہونے والی کتابوں کی حد مقرر کر دی ہے، میوزک پلیٹ فارمز پر مکمل طور پر اے آئی سے بنے گانے تیزی سے اپ لوڈ ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ورچوئل انفلوئنسرز نمودار ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے مواد کی بھرمار مزید بڑھ جائے گی اور ناظرین و سامعین کے لیے اپنی پسند کا مواد ڈھونڈنا مشکل تر ہوگا۔
بین ریسرچ کے مطابق 60 فیصد تخلیق کار ایسے ہیں جو اے آئی کے ذریعے وہ مواد بنانے کو تیار ہیں جسے انہوں نے پہلے کبھی تخلیق نہیں کیا تھا۔ یوں ‘یوزر جنریٹڈ کانٹینٹ’ کی ندی اب سمندر میں بدلنے والی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خودمختار اسٹوڈیوز اور چھوٹی کمپنیوں کے لیے اے آئی بڑی سہولت ہے کیونکہ وہ کم لاگت میں معیاری مواد تیار کر سکیں گے اور بڑی کمپنیوں کا مقابلہ کریں گے۔ دوسری جانب بڑی میڈیا کمپنیوں کو اپنی تخلیقی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے کارکردگی میں بہتری لانا ہوگی اور زیادہ پریمیم تجربات فراہم کرنا ہوں گے۔
بین ماہرین کے مطابق امریکی صارفین عمومی طور پر مکمل اے آئی سے بنے مواد کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ اس بات پر اعتراض نہیں کرتے کہ تخلیقی عمل میں اے آئی مددگار ثابت ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں سی جی آئی، ڈیجیٹل میوزک ٹولز اور ای بکس نے سب کچھ بدل ڈالا تھا لیکن ایک حقیقت آج بھی قائم ہے اور وہ یہ ہے کہ کامیابی کے لیے معیاری مواد اور مؤثر ناظرین و صارفین کی شمولیت سب سے بنیادی شرط ہے۔