پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے برطانوی ٹیلی وژن نیٹ ورک ’آئی ٹی وی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کو لاحق خطرات سے متعلق شعور اجاگر کریں۔
اپنے وکلا کے ذریعے دیے گئے اس انٹرویو میں عمران خان نے برطانوی وزیراعظم کو ان کی انتخابی کامیابی پر مبارکباد دی اور ان سے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کو سمجھنے کے لیے تصور کریں کہ برطانیہ میں انتخابی مہم کے دوران لیبر پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کو رات کے آخری پہر اغوا کیا جارہا ہے۔
عمران خان سے ایک سوال میں پوچھا گیا کہ کیا برطانوی حکومت کو ان کی رہائی کے مطالبات کو بڑھانا چاہیے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ عالمی سطح پر برطانوی حکومت پر بڑی ذمہ داریاں ہیں اور دنیا کو اس حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا قیادت خصوصاً غزہ کی ہولناک صورتحال اور عالمی سطح پر جمہوری اصولوں کے خاتمے کے لیے برطانوی انتظامیہ کی جانب دیکھ رہی ہے، ہمارا ایک اجتماعی فرض ہے کہ ہم امن کی اقدار کو برقرار رکھیں اور ہر ایک کے لیے آزادی اور انصاف کے لیے جدوجہد کریں، برطانیہ ان اقدار کے لیے آواز اٹھائے گا تو اس کی بہت زیادہ اہمیت ہوگی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’وزیراعظم اسٹارمر کو برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی سے نمٹنے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے، میں نے کرکٹ کے دنوں میں برطانیہ میں زیادہ وقت گزارا اور اب پچھلی دہائی میں اسلامو فوبیا میں اضافہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے، مجھے امید ہے کہ نومنتخب برطانوی حکومت اس متعاصبانہ سوچ کا خاتمہ کرے گی جس نے مسلمانوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔‘
برطانوی انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اسٹارمر اور ان کی کابینہ نے بغیر کسی انتخابی جوڑ توڑ کے عوام کی حقیقی مرضی سے اقتدار سنبھالا، میری ان سے گزارش ہے کہ وہ ذرا تصور کریں ان کی الیکشن میں اس واضح کامیابی کو اگر چوری کرلیا جائے تو انہیں کیسا محسوس ہوگا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جائز طور پر صرف چند نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے منظر نامے کی تصویر بنائیں جہاں ایک پارٹی جس نے بمشکل 18 سیٹیں جیت کر آپ کا مینڈیٹ چھین لیا، جہاں آپ کی پارٹی کا انتخابی چھین لیا گیا اور اس کے رہنماؤں کو اس وقت تک قید یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب تک کہ وہ وفاداری نہ بدل لیں یا سیاست کو مکمل طور پر خیرباد نہ کہہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ، ’میں تقریباً ایک سال سے 7/8 فٹ کے ڈیتھ سیل میں قید ہوں، یہ سیل عام طور پر دہشتگردوں اور سزائے موت کے قیدیوں کے لیے مختص ہوتا ہے، میں جمہوری تبدیلی کے لیے پرعزم اور تیار ہوں؛ ان حالات کے باوجود نماز اور کتابیں پڑھنے اور ورزش کرنے سے میں اور مضبوط ہوا ہوں، میں ذہنی اور جسمانی طور پر جدوجہد کے لیے تیار ہوں، پاکستان میں حقیقی جمہوری تبدیلی اور آزادی کبھی بھی آسان نہیں ہوگی۔‘
انہوں نے کہا، ’ذرا تصور کریں کہ گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے اور خواتین اور بچوں کو رات کے آخری پہر میں اغوا کیا گیا ہے، میری پارٹی کو بے دردی سے دبایا گیا، پاکستان کے عوام تبدیلی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ترس رہے ہیں، ان کے ووٹ انصاف، خود ارادیت اور آزادی کے لیے پکار رہے ہیں۔‘