پاکستان کا کرپٹو معیشت کی جانب تاریخی قدم: بلاک چین اور بٹ کوائن ذخائر قومی نظام کا حصہ بننے کو تیار

پاکستان نے کرپٹو کرنسی اور بلاک چین کے شعبے میں اہم پیشرفت کرتے ہوئے بٹ کوائن ذخائر کے قیام اور ڈیجیٹل اثاثوں کو قومی نظام کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس سے پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟

ماہرین نے وی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ اگر اس شعبے کو شفاف حکمت عملی اور موزوں پالیسیوں کے ساتھ آگے بڑھایا گیا تو یہ قدم پاکستان کی معیشت کے لیے غیر معمولی مواقع فراہم کر سکتا ہے۔

کرنسی کے شعبے سے منسلک اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے ذخائر پاکستان کی معیشت کے لیے ایک غیر معمولی موقع فراہم کرتے ہیں، حالیہ دنوں میں جس انداز سے کرپٹو کونسل قائم کی گئی ہے اور اس پر تیزی سے کام جاری ہے، وہ خوش آئند ہے۔
’اگرچہ پاکستان نے اس میدان میں تاخیر ضرور کی لیکن اب وزیراعظم، متعلقہ ادارے اور اسٹیٹ بینک بھرپور سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کر رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کے گورنر کی جانب سے پاکستان کی اپنی ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے کا عندیہ، اس سمت ایک بڑا قدم ہے۔‘
ماہرین کے مطابق دنیا تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہی ہے، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے بھی کرپٹو کرنسی کے ذریعے خرید و فروخت کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس تبدیلی سے نہ صرف پاکستان کی معیشت مزید ڈیجیٹلائز ہوگی بلکہ کرپٹو کرنسی کی لین دین بھی رسمی اور قانونی دائرے میں آ جائے گی۔

ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی کرپٹو مارکیٹ سے جڑنے کا موقع ملے گا، جو غیر ملکی سرمایہ کاری اور کرپٹو مائننگ کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔
’پاکستان میں سستی لیبر، وافر زمین اور بجلی کی دستیابی کرپٹو مائننگ کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتی ہے۔ تاہم، اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ خود مائننگ میں شامل ہونے کے بجائے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے۔‘
ساتھ ہی ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ قانونی حیثیت دیے جانے کے بعد کرپٹو پر ضرورت سے زیادہ ریگولیشن یا ٹیکسز عائد نہ کیے جائیں، اگر بیوروکریسی نے بھاری ٹیکسز نافذ کر دیے تو اس سے لوگ غیر قانونی ذرائع کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، جو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ظفر پراچہ کے مطابق پاکستان میں پہلے ہی تقریباً 2 سے 2.5 کروڑ افراد کرپٹو سے وابستہ ہیں اور اندازاً 20 سے 22 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری موجود ہے بلکہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ’ہزاروں پاکستانی کئی برسوں سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ان کے پاس لاکھوں ڈالرز مالیت کے بٹ کوائنز اور دیگر کرپٹو اثاثے موجود ہیں۔‘
لہٰذا، ماہرین کے نزدیک اس پورے عمل میں ایک متوازن، شفاف اور دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد قائم رکھا جا سکے بلکہ پاکستان اس ابھرتے ہوئے عالمی مالیاتی نظام کا مؤثر حصہ بھی بن سکے۔
معاشی ماہرراجہ کامران کا اس بارے میں کہنا تھا کہ بلاک چین ایک جدید اور انقلابی ٹیکنالوجی ہے، جس کے ذریعے مختلف نظاموں کو مؤثر انداز میں ڈیجیٹائز کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، حکومت کی جانب سے جاری کردہ اسٹامپ پیپرز اور ان پر ہونے والے معاہدے بلاک چین پر منتقل کیے جا سکتے ہیں، جس سے ان دستاویزات کی شفافیت، سیکیورٹی اور ناقابلِ تغیر حیثیت قائم رہے گی۔
’سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بلاک چین پر ہونے والی ہر تبدیلی ہمیشہ کے لیے ریکارڈ میں محفوظ ہو جاتی ہے، اور کسی بھی وقت ڈیلیٹ یا چھپائی نہیں جا سکتی، اس ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف حکومتی معاہدے، بلکہ دیگر قیمتی اثاثے بھی بلاک چین پر محفوظ کیے جا سکتے ہیں، جس سے اعتماد اور شفافیت میں اضافہ ہوگا۔‘
جہاں تک ڈیجیٹل کرنسی کا تعلق ہے، تو اس ضمن میں راجہ کامران کی رائے میں فی الحال اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی موجودہ مالیاتی لین دین کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کر دیں، تو ڈیجیٹل کرنسی کی الگ سے اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
’مزید یہ کہ کرپٹو کرنسیز جیسے بٹ کوائن کی مائننگ کے لیے بہت زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس اضافی بجلی کے ذخائر موجود ہیں، لیکن مائننگ کی بھاری توانائی ضروریات کے باعث یہ فائدہ مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘
راجہ کامران کے مطابق چین سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک نے بھی بجلی کی زیادہ کھپت کے باعث کئی کرپٹو مائننگ کمپنیوں کو بند کر دیا ہے لہذا ہمیں بھی بلاک چین ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ ’۔۔۔تاکہ اپنی معیشت اور سرکاری نظام کو زیادہ شفاف اور محفوظ بنایا جا سکے، بجائے اس کے کہ ہم مائننگ یا کرپٹو کرنسی جیسے پہلوؤں میں غیر ضروری سرمایہ کاری کریں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں