امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی تجارت پر ایک نیا دھچکا دیتے ہوئے برازیل سمیت 20 ممالک پر بھاری نئے ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس میں برازیل کو سب سے زیادہ 50 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اقدامات تجارتی خسارے کو ”ناقابل برداشت“ قرار دیتے ہوئے کیے اور کہا کہ یہ فیصلے امریکہ کے اقتصادی تحفظ اور قومی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔
ٹرمپ کے مطابق برازیل پر 50 فیصد نیا ٹیرف یکم اگست سے نافذ ہوگا اور یہ نہ صرف تجارتی عدم توازن بلکہ سابق برازیلی صدر جائیر بولسونارو کے خلاف جاری عدالتی کارروائیوں کا ”جوابی قدم“ بھی ہے۔
دیگر متاثرہ ممالک میں الجزائر، عراق، لیبیا، سری لنکا (30 فیصد)، برونائی، مالدووا (25 فیصد)، اور فلپائن (20 فیصد) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ٹرمپ نے میانمار، لاؤس، جنوبی افریقہ، قازقستان، ملیشیا، تیونس، انڈونیشیا، بوسنیا، بنگلہ دیش، سربیا، کمبوڈیا، اور تھائی لینڈ پر بھی تجارتی اقدامات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے ایک خط میں کہا، ’براہ کرم سمجھیں کہ یہ ٹیرف ان طویل برسوں کی یکطرفہ پالیسیوں اور تجارتی رکاوٹوں کے خلاف ایک ضروری ردعمل ہیں، جو امریکہ کے خلاف بڑے تجارتی خسارے کا باعث بنے۔‘
ٹرمپ نے ساتھ ہی یہ پیشکش بھی کی کہ اگر کوئی غیر ملکی کمپنی اپنی پیداوار امریکہ منتقل کرے، تو وہ ان نئے ٹیرف سے مستثنیٰ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کسی ملک نے جوابی اقدامات کیے تو امریکہ مزید سخت ٹیکس عائد کرے گا۔
برازیل کا بھرپور جواب: خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں
برازیلی صدر لوئز لولا ڈا سلوا نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ کی جانب سے یکطرفہ ٹیرف کے جواب میں برازیل بھی امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات لگائے گا۔ لولا نے کہا، ’برازیل ایک خودمختار ریاست ہے اور کسی بھی قسم کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘
لولا نے سابق صدر بولسونارو کے خلاف مقدمات کو ”خالصتاً اندرونی عدالتی معاملہ“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بیرونی دباؤ یا دھمکی کا ہماری عدالتوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
برازیلی صدر نے ٹرمپ کے تجارتی خسارے سے متعلق دعوے کو بھی جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 15 سالوں میں امریکہ کو برازیل کے ساتھ تجارت میں 410 ارب ڈالر کا فائدہ ہوا ہے۔
ٹرمپ نے حالیہ برکس سربراہی اجلاس میں بھی تمام رکن ممالک (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ) پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی تھی، اور انہیں ”امریکہ مخالف“ قرار دیا تھا۔ اس اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی شریک تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برازیل کے درمیان بڑھتا ہوا یہ تجارتی تنازع دونوں معیشتوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ امریکہ چین کے بعد برازیل کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ عالمی سطح پر ان نئے اقدامات سے تجارتی کشیدگی اور بڑھنے کا خدشہ ہے۔