لیاری میں مخدوش عمارتیں گرانے کا آغاز، خواب ملبے تلے دفن، نم آنکھوں سے رہائشیوں کا الوداع

شہرِ قائد میں بوسیدہ اور خستہ حال عمارتوں کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوگیا۔ انتظامیہ بالآخر متحرک ہوئی اور لیاری کے علاقے بغدادی میں حال ہی میں منہدم ہونے والی عمارت سے ملحقہ خطرناک عمارت کو گرانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

متاثرہ عمارت کے مکینوں کو سامان نکالنے کی اجازت دی گئی، مگر ان آنکھوں میں آنسو اور چہروں پر دکھ کے سائے نمایاں تھے۔ برسوں سے آباد گھروں کو لمحوں میں خالی کرنا پڑا، لیکن تحفظِ جان کے لیے یہ کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑا۔ مکینوں نے شکایت کی کہ متبادل رہائش کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔

وہ لوگ چالیس سال سے ان دیواروں کے سائے میں جی رہے تھے۔ اب وہ چھت نہیں رہی، وہ دیواریں نہیں رہیں، اور وہ محفوظ احساس بھی رخصت ہوگیا۔

حکام کے مطابق کراچی میں اس وقت 586 عمارتیں مخدوش قرار دی گئی ہیں جن میں زندگی خطرے سے خالی نہیں۔ پہلے مرحلے میں 51 عمارتوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لیاری کی عمارت جو 4 جولائی کو سیل کی گئی تھی، اسے سب سے پہلے گرایا جا رہا ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مطابق اس عمارت کو مکمل طور پر مسمار کرنے میں پندرہ دن لگیں گے، اور اطراف کی دیگر خطرناک عمارتوں کو بھی ایک ایک کرکے گرایا جائے گا۔

عمارتوں پر سرخ نشان لگ چکے ہیں۔ یہ نشان محض دیواروں پر نہیں، بلکہ ان خوابوں پر ہیں جو ان گھروں کے ساتھ دفن ہو رہے ہیں۔ لیکن حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ناگزیر ہے اور جان بچانا اولین ترجیح ہے۔

بوسیدہ عمارتوں کا خاتمہ ایک تلخ لیکن ضروری قدم ہے۔ یہ شہر کی سلامتی، شہریوں کی جان کے تحفظ اور مستقبل کی بقاء کا معاملہ ہے۔ جن عمارتوں میں آج لوگ بستے ہیں، اگر انہیں خالی نہ کرایا جائے تو کل وہ ملبے تلے آسکتے ہیں۔

یہ آپریشن صرف اینٹوں اور سیمنٹ کو گرانے کا عمل نہیں یہ ان خطرات کو روکنے کی کوشش ہے جو ہر بارش، ہر زلزلے، اور ہر جھٹکے کے ساتھ مزید قریب آتے جا رہے ہیں۔

انتظامیہ متحرک، آپریشن کا آغاز

سانحے کے بعد سندھ حکومت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی اسحاق کھوڑو کو معطل کر دیا، ان کی جگہ شاہ میر خان بھٹو کو ادارے کا نیا سربراہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عمارت گرنے کی وجوہات جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

لیاری بلڈنگ حادثہ: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی اسحاق کھوڑو کو عہدے سے فارغ کردیا گیا

وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن، وزیرداخلہ ضیاء الحسن لنجار اور وزیر بلدیات سعید غنی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں یقین دہانی کرائی کہ کوتاہی برتنے والوں کو نہ صرف گرفتار کیا جائے گا بلکہ لواحقین کو فی کس دس لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔

وزرا نے واضح کیا کہ مجرمانہ غفلت کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے، اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی بنیاد پر شہر میں بوسیدہ عمارتوں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔

کراچی میں انتہائی خستہ عمارتوں کو گرانے کا فیصلہ، کمشنر کو سروے کا حکم

منہدم عمارت کے ملبے میں متعدد رکشے بھی دب گئے۔ یہ وہ رکشے تھے جو ان کے مالکان کے لیے روزگار کا واحد ذریعہ تھے۔ رکشہ ڈرائیوروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ملبے سے ان کے رکشے نکالنے کی اجازت دی جائے۔ ”چھت تو گئی، اب روزی بھی گئی… چولہا کیسے جلے گا؟“ کچھ رکشے تاحال صحیح حالت میں ہیں، مگر انتظامیہ کی عدم توجہی نے ان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔

لیاری بلڈنگ حادثہ: رہائشی دربدر، ڈرائیور اپنا سلامت رکشہ نکالنے پر بضد

عمارتیں گرانا شاید آسان ہو، مگر ان چھتوں کے نیچے بسنے والے خواب، یادیں، اور زندگیاں بھی مسمار ہو جاتی ہیں۔ آج لیاری کی گلیوں میں صرف ملبہ نہیں، بلکہ چیخیں، آہیں اور سوالات بکھرے ہوئے ہیں۔

کراچی کا ضمیر اب جاگ چکا ہے — لیکن قیمت بہت بھاری ہے۔

لیاری بغدادی میں زمین بوس ہونے والی پانچ منزلہ عمارت نے کئی زندگیاں نگل لیں۔ انہی میں سے ایک، جمہ دیو جی ہیں، جن کے دو بیٹے، دو بہوئیں، ایک پوتا اور اہلیہ حادثے میں جان سے گئے۔

جمہ دیو جی اب چھت سے محروم اور کسمپرسی کی حالت میں حکومت کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔

”بوڑھا اور ناتواں کاندھا، چھ لاشیں — جمہ دیو جی کی آنکھیں اب صرف سوال کرتی ہیں: کہاں جاؤں؟“

ان کا کہنا ہے کہ زندگی اجڑ گئی، میں کہاں جاؤں، کس سے التجا کروں؟ صرف اتنی خواہش ہے کہ باقی عمر کسی چھت کے نیچے گزار لوں۔ جمہ دیو جی کے رشتے داروں نے بتایا کہ وہ کچھ دن ان کے پاس رہیں گے، لیکن اس کے بعد ان کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔

ہندو کمیونٹی کی مہیشواری جماعت نے متاثرہ خاندانوں کے لیے دعائیہ تقریب منعقد کی، جبکہ مہشواری جماعت خانے کے صدر لکشمن مہیشواری نے شکایت کی کہ حکومت نے تاحال متاثرین کو کوئی متبادل جگہ یا امداد فراہم نہیں کی۔

سانحے کے بعد جہاں ایک طرف متاثرین اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کر رہے ہیں ، وہیں دوسری طرف چھت کی تلاش، انصاف کی امید اور زندگی کی جدوجہد ان کا نیا امتحان بن چکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں