کراچی کے ایک اور تاجر کو ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے سے اغوا کرلیا۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع خطرناک ‘کچے’ کے علاقے میں تاجر کیسے جا پہنچتے ہیں، اور انہیں وہاں اغوا کرنا اتنا آسان کیوں ہے؟
اغوا ہونے والے تاجر کی شناخت معین الدین کے نام سے ہوئی ہے، جو اسکریپ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ 21 جون کو لانڈھی ریلوے اسٹیشن سے صادق آباد روانہ ہوئے تھے، تاہم چند روز بعد، 24 جون کو ان کے اغوا کی خبر منظرِ عام پر آئی، اور 27 جون کو ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں انہیں برہنہ حالت میں تشدد کا نشانہ بنتے دکھایا گیا۔
اغوا کیسے ہوا؟
متاثرہ تاجر کے بیٹے نے قائدآباد تھانے میں مقدمہ درج کراتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد معین الدین کاروباری سلسلے میں صادق آباد گئے تھے، جہاں رحیم یار خان کے قریب کچے کے علاقے سے ڈاکوؤں نے انہیں اغوا کرلیا۔
اغوا کاروں نے فون پر 2 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ تاجر کے بیٹے کے مطابق، اغوا کار نہ صرف ویڈیوز بھیج رہے ہیں بلکہ مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
کون سے کچے میں، سندھ یا پنجاب؟
یہ واضح نہیں کہ تاجر کو سندھ کے کچے میں رکھا گیا ہے یا پنجاب کے کسی ضلع میں۔ یہی پہلو پولیس اور رینجرز کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچے کے علاقے میں جانے کا مطلب خود خطرے کو دعوت دینا ہے، اور کئی کیسز میں یہ ہنی ٹریپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔
پولیس کیا کر رہی ہے؟
ایس ایس پی اے وی سی سی آصف بلوچ کے مطابق، پنجاب اور سندھ کے 3 اضلاع پر مشتمل اس پورے علاقے میں مشترکہ آپریشن کے بغیر پیشرفت ممکن نہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بعض اوقات لوگ خود ہوش و حواس میں ان علاقوں میں چلے جاتے ہیں، اہلِخانہ کو بھی اطلاع نہیں دیتے، اور یہی رویہ اغوا کو ممکن بناتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے بس اسٹاپس پر آگاہی مہم شروع کی ہے، گاڑیوں میں ریکارڈنگز چلائی جا رہی ہیں اور عوام کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ان علاقوں کا رخ کرتے وقت محتاط رہیں۔
تاجر برادری کا ردعمل
آل کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی اور اندرون سندھ کے درمیان تجارت کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کچے کے ڈاکوؤں کا خوف بڑھا، تو یہ تجارت پر حملہ تصور ہوگا۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ امن و امان کے دعوے عملی اقدامات میں بدلے، ورنہ کاروباری سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
ریاستی رٹ کا امتحان؟
یہ واقعہ محض ایک تاجر کے اغوا کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ریاست کی رٹ، داخلی سلامتی اور تجارتی تحفظ کا بڑا امتحان ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس، رینجرز اور خفیہ ادارے مشترکہ حکمت عملی سے کچے کے ان علاقوں کو مجرموں کے گڑھ سے قانون کی عملداری میں لائیں۔