قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بتایا گیا ہے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں پھر ردو بدل کرتے ہوئے 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ والے سیلری سلیب پر انکم ٹیکس کی شرح ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کمیٹی نے آڑھتیوں کے منافع پر انکم ٹیکس لگانے کی تجویز منظور جب کہ کاشت کاروں کو غذائی اجناس کی فروخت پر انکم ٹیکس لگانے کی تجویز مسترد کردی۔
نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا جہاں بجٹ 26-2025 میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں تبدیلی کا فیصلہ کر لیا گیا۔
قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں بجٹ 26-2025 میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں پھر ردو بدل کرتے ہوئے 6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ والے سیلری سلیب پر انکم ٹیکس کی شرح ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نئے بجٹ میں سالانہ 6 سے 12 لاکھ والے سیلری سلیب پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد مقرر کی گئی تھی جسے اب ایک فیصد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک ٹیکس چھوٹ ایک فیصد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ رواں مالی سال 6 سے 12 لاکھ سالانہ آمدن پر 5 فیصد انکم ٹیکس عائد ہے، حکومت نے سرکاری ملازمین کا ریلیف 6 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کے باعث ٹیکس کی شرح کم کی تھی۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی نے سالانہ ایک کروڑ روپے سے زیادہ پنشن لینے والوں پر ٹیکس کی منظوری دے دی ہے، ایک کروڑ سے زیادہ آمدن پر 5 فیصد انکم ٹیکس لیا جائے گا جبکہ سالانہ ایک کروڑ روپے تک پنشن پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔
چیئرمین کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ ساڑھے 8 لاکھ ماہانہ پنشن لینے والوں کو ٹیکس میں حصہ ڈالنا چاہیے، جس پر چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کہا کہ بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بھی پنشن پر ٹیکس عائد ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے کہا کہ پھر ایف بی آر کو بھی دنیا کے اصولوں پر چلائیں، عمر ایوب سمیت بعض کمیٹی اراکین نے پنشن پر ٹیکس لگانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
کمیٹی رکن محمد جاوید نے کہا کہ کل ایک لاکھ پنشن پر بھی ٹیکس لگ جائے گا، ججوں کے علاوہ کسی کی پنشن ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔
ایف بی آر حکام کے مطابق 10 لاکھ روپے ممبرشپ فیس وصول کرنے والےکلبز انکم ٹیکس نیٹ میں آئیں گے، وزیر مملکت خزانہ نے کہا یہ کلبز امرا کی عیاشیوں کے لیے ہیں ان کی آمدن پر ٹیکس ہونا چاہیے، آئندہ مالی سال بینکوں کے منافع پر 52 فیصد انکم ٹیکس عائد ہو گا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ رجسٹرڈ بزنس کے لیےکیش ٹو کیش کاروبارکرنے پرسختیاں مزید سخت کردی گئی ہیں، دو لاکھ روپے تک کا بزنس کیش میں کرنے والے 50 فیصد ان پٹ ایڈجسٹ کرواسکیں گے۔
خزانہ کمیٹی نے پراپرٹی پر ملنے والی آمدن کو باقی بزنسز سے الگ کرنے کی شق منظور کرلی، پراپرٹی پر ملنے والا منافع دوسرے بزنسز میں نقصان کی صورت میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکےگا، رجسٹرڈ کاروباروں کو نقصان کی صورت میں ٹیکس ایڈجسٹ کرنےکی لمٹ محدودکر دی گئی۔
ایف بی آر آن لائن سیل پر ایک فیصد اور دکان پر 5 فیصد ٹیکس وصول کرے گا، ڈیجیٹل مارکیٹ والوں کو ٹرن اوور پر ٹیکس دینا ہو گا۔
اجلاس میں ٹیکس نادہندہ سے ریکوری سے متعلق قانونی شق پر تفصیلی بحث کے بعد چیئرمین کمیٹی نے قانون کو مزید بہتر بنا کر دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
کمیٹی نے کمرشل جائیدادوں پر 4 فیصد اسٹینڈرڈ کرائے کی حد مقرر کرنے کی تجویز مسترد کردی تاہم آڑھتیوں کے منافع پر انکم ٹیکس لگانے کی تجویز منظور کر لی جب کہ کاشت کاروں کو غذائی اجناس کی فروخت پر انکم ٹیکس لگانے کی تجویز بھی مسترد کردی گئی۔