اے آئی ٹیکنالوجی امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بگاڑ دے گی، یو این رپورٹ کی وارننگ

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹیکنالوجی امیر اور غریب افراد کے درمیان فرق کو مزید بگاڑ سکتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق رپورٹ میں مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اس کے پیچھے چھپے مشکل حقائق کی نشاندہی ہوئی ہے، جن میں وہ خدشات شامل ہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے محروم افراد دنیا میں مزید پیچھے نہ رہ جائیں۔

منگل کو جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق اگربروقت مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو اے آئی کے زیادہ تر فوائد امیر ممالک سمیٹ لیں گے، جبکہ پسماندہ ممالک بنیادی ضروریات اور جدید ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی سے مزید دور ہوتے جائیں گے۔

رپورٹ نے اس صورتحال کا موازنہ صنعتی انقلاب کے دور میں ہونے والی “عظیم انشعاب” (Great Divergence) سے کیا ہے، جب مغربی ممالک تیز رفتار ترقی سے آگے بڑھ گئے تھے جبکہ دیگر خطے پیچھے رہ گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق، اے آئی کے استعمال سے متعلق سوالات تقریباً ہر جگہ زیرِ بحث ہیں، کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کمپیوٹرز اور روبوٹس کے ذریعے انسانی مشقت کی جگہ لے سکتی ہے یا کام کے طریقۂ کار بدل سکتی ہے۔ لیکن مصنفین کے مطابق اصل توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ یہ انسانی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب کرے گی، نہ کہ صرف صنعت، مسابقت اور معاشی نمو پر۔

رپورٹ کے مرکزی مصنف اور لندن اسکول آف اکنامکس کے ماہر مائیکل متھوکرشنا نے کہا کہ ہم عموماً ٹیکنالوجی کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ اصول ٹیکنالوجی پہلے نہیں، انسان پہلے ہو۔

رپورٹ کے مطابق، وہ کمیونٹیز جہاں لوگ ابھی تک بنیادی تعلیم، بجلی اور انٹرنیٹ تک پہنچ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، یا وہ افراد جو عمر رسیدہ ہیں، یا جنگ، تنازعات اور موسمی آفات کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں وہ سب اے آئی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک عمومی مقصد کی ٹیکنالوجی ہے جو پیداواریت میں اضافہ، نئی صنعتوں کے قیام اور پسماندہ معیشتوں کی ترقی میں مدد دے سکتی ہے۔ دیہی علاقوں میں زراعت کے بہتر مشورے، طبی تشخیص میں رفتار اور درستگی، موسم کی پیشگوئیوں میں بہتری اور قدرتی آفات کے بعد نقصانات کا تیز تجزیہ وہ نمایاں فوائد ہیں جن کا یہ ٹیکنالوجی وعدہ کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین، جاپان، جنوب کوریا اور سنگاپور جیسے ممالک اے آئی کے استعمال کے لیے موزوں پوزیشن میں ہیں، جبکہ افغانستان، مالدیپ اور میانمار جیسے ممالک مناسب مہارت، بجلے کے نظام اور دیگر ضروری وسائل کی کمی کے باعث اے آئی سے فائدہ اٹھانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی علاقائی تفاوت موجود ہے، جہاں بعض علاقے پیچھے رہ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

آسیہ پیسفک خطے کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی اب بھی انٹرنیٹ تک رسائی سے محروم ہے، جس کے باعث کروڑوں لوگ ڈیجیٹل آئی ڈیز، موبائل ادائیگیوں، تعلیم اور مہارتوں جیسے بنیادی ذرائع سے بھی محروم رہ سکتے ہیں۔

یو این ڈی پی کے ایشیا پیسفک کے چیف اکانومسٹ فلپ شیلکنز نے خبردار کیا کہ اگر یہ خلا پُر نہ کیا گیا تو اس خطے کے لوگ عالمی معیشت میں بھرپور شرکت نہ کر سکیں گے اور مزید پیچھے رہ جائیں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اے آئی کے استعمال میں شفافیت اور مؤثر قوانین نہ بنائے گئے تو یہ ٹیکنالوجی اقلیتی برادریوں یا دیگر کمزور گروہوں کے خلاف تعصبات کو مضبوط کر سکتی ہے، کیونکہ اس کے بہت سے نظام سیاہ باکس کی طرح کام کرتے ہیں جن میں فیصلہ سازی واضح نہیں ہوتی۔
رپورٹ کے اختتام میں کہا گیا ہے کہ ہدف یہ ہے کہ اے آئی تک رسائی کو جمہوری بنایا جائے تاکہ ہر ملک اور ہر کمیونٹی کو اس کے فوائد حاصل ہو سکیں، جبکہ اُن لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے جو تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ خطرات کا شکار ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اے آئی اب جدید زندگی کی بنیادی ضرورتوں جیسے بجلی، سڑکیں اور انٹرنیٹ کی طرح اہم ہو چکی ہے۔ اس لیے حکومتوں کو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، تعلیم و تربیت، منصفانہ مسابقت اور سماجی تحفظ پر مزید سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں