کچھ دنوں سے خیبرپختونخوا میں گورنر کی تبدیلی کی باتیں چل رہی تھیں اور میڈیا میں 6 ممکنہ امیدواروں کے نام بھی رپورٹ کر دیے گئے پھر اس کے بعد خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کی خبریں چلنا شروع ہوئیں لیکن پشاور اور اسلام آباد کے کچھ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ ان خبروں کی حقیقت فی الحال کوئی نہیں اور یہ تاحال صرف پاکستان تحریک انصاف کو دباؤ میں لانے کا ممکنہ حربہ ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی خود کو ہٹائے جانے کے حوالے سے زیر گردش خبروں کی تردید کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی جو بھی فیصلہ کرے گی انہیں قبول ہو گا۔
ان خبروں کو تقویت وزیرِ مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کے اس بیان سے ملی جس میں انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گورننس اور دہشتگردی کے واقعات بڑھ چکے ہیں، صوبائی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے، صوبے میں 2 ماہ کے لیے گورنر راج لگایا جا سکتا ہے۔
بیرسٹر عقیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی ٹیم بری طرح ناکام ہے، صوبائی حکومت وفاق سے تعاون نہیں کر رہی، جہاں جہاں صوبائی حکومت کو بتایا جاتا ہے کہ کارروائی کی ضرورت ہے تو صوبائی حکومت کسی قسم کا تعاون یا کارروائی نہیں کرتی۔
ابھی تک گورنر راج کا واضح اشارہ نہیں ہے
قومی امور کے حوالے سے معتبر صحافی اور تجزیہ نگار حماد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک مجھے گورنر کی تبدیلی یا گورنر راج کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور ایسی خبریں صرف خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے پھیلائی جارہی ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی محمود جان بابر نے بھی اسی قسم کا اظہار کیا اور کہا کہ ابھی تک مجھے گورنر کی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو دبانے کی کوشش کررہی ہیں اور دونوں چاہتے ہیں کہ سامنے والا دب جائے اور یہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے کوئی سنجیدہ تحریک دکھائی نہیں دیتی نہ ہی وفاقی حکومت کے ذرائع ان باتوں کو کنفرم کررہے ہیں۔











