پہلی بار انسانی دماغ کے خلیوں کا جامع نقشہ تیار، کونسی بیماریوں پر قابو پایا جاسکے گا؟

سائنس دانوں نے ایک ایسے بین الاقوامی تحقیقی منصوبے میں سنگِ میل عبور کر لیا ہے جس کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ انسانی دماغ کے مختلف اقسام کے خلیے ابتدائی جنینی مرحلے سے لے کر بلوغت تک کس طرح پیدا ہوتے اور ترقی کرتے ہیں۔

یہ تحقیق مستقبل میں آٹزم، شیزوفرینیا اور دیگر دماغی امراض کے علاج کے نئے راستے کھول سکتی ہے۔

امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے برین اِنیشی ایٹو سیل اٹلس نیٹ ورک کے تحت ہونے والی اس تحقیق میں سائنس دانوں نے انسانی، چوہے اور جزوی طور پر بندر کے دماغوں پر کام کیا۔

انہوں نے دماغی خلیوں کی نشوونما، ان کے ارتقاء اور جینیاتی تبدیلیوں کا تفصیلی نقشہ تیار کیا۔

تحقیق کے مطابق، سائنس دانوں نے ان خلیوں کی نشاندہی کی جو دماغی عمل کے اہم جینز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس دوران انسانی اور حیوانی دماغ کے خلیوں میں مماثلتیں بھی سامنے آئیں۔

تاہم انسان کے دماغ کی کچھ منفرد خصوصیات بھی دریافت ہوئیں، جن میں پہلے سے نامعلوم خلیاتی اقسام بھی شامل ہیں۔

یہ نتائج معروف سائنسی جریدے نیچر اور اس سے وابستہ رسائل میں شائع کیے گئے ہیں۔

ایلن انسٹی ٹیوٹ کے دماغی سائنس دان اور تحقیق کی قیادت کرنے والے ہونگ کوئی زینگ نے کہا کہ ہمارے دماغ میں ہزاروں اقسام کے خلیے موجود ہیں جو مختلف خصوصیات اور افعال کے حامل ہیں۔

اور انہی کی باہمی کارکردگی جذبات، رویوں اور سوچ کے عمل کو جنم دیتی ہے۔

تحقیق میں انکشاف ہوا کہ چوہے کے دماغ میں 5,000 سے زائد خلیاتی اقسام پائی جاتی ہیں، اور انسان میں ان کی تعداد کم از کم اتنی ہی یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

یوسی ایل اے کی نیوروسائنٹسٹ اپرنا بھدوری نے کہا کہ اب سائنس دانوں کے پاس انسانی دماغ کی ترقی کے مراحل کا ایک زیادہ تفصیلی نقشہ ہے، جو اس سے قبل ممکن نہ تھا۔

تحقیق کے مطابق یہ علم نہ صرف انسانی دماغ کی خصوصیات اور ذہانت کو سمجھنے میں مدد دے گا بلکہ مختلف دماغی بیماریوں جیسے آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی اور شیزوفرینیا کی جڑوں تک پہنچنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

سائنس دانوں نے دماغ کے ان حصوں پر خصوصی توجہ دی جن میں نیوکورٹیکس، جہاں اعلیٰ درجے کی سوچ پیدا ہوتی ہے، اور ہائپو تھیلمس، جو جسم کا درجہ حرارت، نیند، بھوک، پیاس اور موڈ کنٹرول کرتا ہے، شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق انسانی دماغ میں خلیوں کی نشوونما کا عمل جانوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل ہوتا ہے، جو انسانی ذہنی ارتقاء کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

اپرنا بھدوری کا کہنا تھا کہ ہمارا حتمی مقصد یہ سمجھنا ہے کہ دماغ کی ترقی کے دوران کون سے عوامل اعصابی یا نفسیاتی بیماریوں کی بنیاد بنتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ تحقیق اس سمت میں ایک بڑی پیش رفت ہے، مگر اس منزل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں