جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کل تک اسحاق ڈار کہہ رہے تھے 26ویں آئینی ترمیم ہضم نہیں ہورہی اور اب 27ویں کہیں اور سے لائی جارہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وزیراعظم، آرمی چیف یا بیورو کریسی سے ہماری کوئی لڑائی نہیں بس ہم ملک میں تلخی کا ماحول کم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے حوالے سے فیض حمید باجوہ اور موجودہ کی پالیسی ایک کیوں ہے؟۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسلم لیگ ن توہین علما کررہی ہے، اماموں کو بارہ ہزار دے رہے ہیں کیا توہین ہے،
کے پی کے میں بھی دس ہزار روپے اماموں کو دے رہے ہیں، مساجد کو کنٹرول کرنے کے لئے پیسے دئیے جارہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئین کو کھلواڑ نہیں بننا چاہیے، ایک سال میں دوسری ترمیم آرہی ہے، جب جبر کے تحت ترامیم کی جائیں گی تو پھر عوام کا سیاستدانوں اور آئین پر کیا اعتماد ہوگاْ
انہوں نے کہا کہ باجوہ نے اپنی نگرانی میں ترمیم کرائی اب پھر وہی ہونے کا تاثر ہے، ہم نے 26ویں ترمیم میں حکومت کو چونتیس شقوں سے دستبردار کرایا، جو چھبیسویں ترمیم سے بچایا اب پھر وہی کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں ملا، اس معاملے پر پوری اپوزیشن کی ملکر متفقہ رائے بنائیں گے۔ آئینی ترمیم کیلیے معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وزیر تین ماہ سے 27ویں آئینی ترمیم پر کام کررہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے، اسحاق ڈار کل تک تو کہتے تھے ابھی چھبیسویں ترمیم ہضم نہیں ہوئی۔
فضل الرحمان نے کہا کہ اگر افغانستان میں مراکز پر حملہ درست ہے تو کل مریدکے اور بہاولپور پر بھارتی حملے کو جوازملے گا، ہمارا مسئلہ افغان حکومت سے ہے مگر سزا افغان مہاجرین کو دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے بعد بھی تو ہم نے افغانستان سے بات چیت کی ہے یہ پہلے ہی کرلیتے ، آج افغانستان پر جو الزام لگایا جارہا ہےکہ یہی ایران پرلگایا جارہا تھا، ہمیں پرو پاکستان افغانستان ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگرد ہیں تو یہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے۔












