یہودیوں کے گڑھ میں مسلمان میئر کی کامیابی، ممدانی کے اقتدار کا امتحان

یہودیوں کے گڑھ میں مسلمان میئر کامیاب، دنیا کا سب سے بڑا یہودی مرکز نیویارک میں ایک تاریخی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی ہے، جہاں فلسطین نواز اور جنوبی ایشیائی نژاد مسلمان سیاست دان ظہران ممدانی نے میئر کا انتخاب جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی، مدانی کے اقتدار کا امتحان اب شروع، نیویارک کے چیلنجز ان کے منتظر،کاروباری طبقے سے تعلقات بحالی، واشنگٹن پوسٹ، ٹائم، پولیٹیکو، بی بی سی اور گلف نیوز کی رپورٹس کے مطابق ممدانی کو غزہ مؤقف پر سفارتی دباؤ کا سامنا ہوگا ، ڈیموکریٹک قیادت کا اعتماد جیتنے اور دائیں بازو کی مزاحمت سے نمٹنا فیصلہ کن آزمائش ، بجٹ خسارہ، وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی اور مالی نظم کا دباؤ، پولیس اصلاحات اور عوامی سلامتی میں توازن؛ بڑھتے جرائم اور عدم تحفظ کے خدشات ، مہنگائی، رہائشی لاگت اور روزگار میں جمود شامل ، بلدیاتی خدمات کی زبوں حالی اور بیوروکریسی کی سرخ فیتہ پالیسی ختم کرنا فوری ترجیحات میں شامل ، مذہبی و مالیاتی طبقات کا اعتماد بحال کرنا، نظریاتی تقسیم پر قابو پانا اور قومی سطح پر ساکھ مستحکم کرنا اہداف شامل ہیں۔ظہران ممدانی کا انتخاب نیویارک کی سیاست میں یہودی اثر و رسوخ کے توازن کو بھی چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سی این این اور این بی سی کے ایگزٹ پولز کے مطابق، یہودی ووٹرز میں گہری تقسیم سامنے آئی 60 فیصد ووٹرز نے کومو کو ووٹ دیا، جبکہ 31 فیصد نے ممدانی کی حمایت کی۔ ماضی میں یہودی ووٹرز عام طور پر ڈیموکریٹ امیدواروں کو 70 تا 80 فیصد ووٹ دیتے رہے ہیں۔ممدانی کی جیت نہ صرف امریکی سیاست میں مسلم نمائندگی کی توسیع ہے بلکہ یہ یہودی ووٹ کی یکطرفہ سیاسی وابستگی کے خاتمے کا بھی اشارہ ہے۔34 سالہ ممدانی نہ صرف نیویارک کے پہلے مسلمان میئر بنے ہیں بلکہ 1892 کے بعد سب سے کم عمر رہنما بھی ہیں جنہوں نے یہ منصب حاصل کیا۔ انہوں نے یہ کامیابی کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر اور محدود وسائل کے ساتھ حاصل کر کے انتخابی تاریخ میں ایک منفرد مثال قائم کی۔ممدانی یکم جنوری کو عہدہ سنبھالیں گے، جہاں ان کے سامنے 116 ارب ڈالر کے بجٹ، تین لاکھ سرکاری ملازمین اور 80 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کا نظم و نسق سنبھالنے کی بڑی ذمہ داری ہوگی۔ ان کی انتخابی مہم سماجی انصاف، مساوات، تارکین وطن کے حقوق، کرایہ فریز، مفت چائلڈ کیئر، مفت بس سروس، کم از کم اجرت 30 ڈالر فی گھنٹہ، سرکاری گروسری اسٹورز اور نئی کمیونٹی سیفٹی ڈپارٹمنٹ کے قیام جیسے وعدوں پر مبنی تھی۔تاہم اقتدار کے آغاز ہی پر ممدانی کو مالی، سیاسی، انتظامی اور سماجی دباؤ سے بھرپور دور کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا واشنگٹن پوسٹ، ٹائم، پولیٹیکو، بی بی سی اور گلف نیوز کی رپورٹس کے مطابق ممدانی کو بطور میئر درج ذیل بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ممدانی کو سب سے پہلے ریاستی اختیارات کی محدودیت اور عوامی توقعات کی بلندی سے نمٹنا ہوگا۔ ان کی مہم کے دوران کاروباری طبقے سے کی گئی سخت تنقید نے ایک فاصلے کو جنم دیا ہے، جسے اب بحال کرنا ان کے لیے ناگزیر ہوگا۔ اسی طرح ان کا اسرائیل۔غزہ تنازع پر دوٹوک مؤقف انہیں سفارتی دباؤ میں لا سکتا ہے، جب کہ قدامت پسند حلقے اور ٹرمپ نواز گروہ پہلے ہی انہیں سوشلسٹ خطرہ قرار دے چکے ہیں۔داخلی طور پر، ممدانی کو اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے اعتدال پسند دھڑے کا اعتماد بحال کرنا اور محدود وفاقی فنڈنگ کے باوجود شہر کے مالی نظم و ضبط کو سنبھالنا ہوگا۔ ان کے وعدوں میں شامل پولیس اصلاحات بھی ایک حساس مسئلہ ہے، کیونکہ انہیں عوامی سلامتی کے تقاضوں اور پولیس فورس کے ردعمل کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ شہر کی بلدیاتی خدمات کی زبوں حالی، بجٹ خسارہ، مہنگائی، رہائشی لاگت اور روزگار میں جمود ان کے لیے مسلسل امتحان بن سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق نیویارک میں جرائم کی بلند شرح، کاروباری ماحول میں بیوروکریسی کی پیچیدگیاں، اور انتظامی مشینری کی سستی نے عوامی اعتماد کو کمزور کیا ہے۔ ممدانی کو ان رکاوٹوں کو دور کر کے سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک نئے اعتماد کا رشتہ قائم کرنا ہوگا۔ ان کے لیے مذہبی اور مالیاتی طبقات کا اعتماد جیتنا، محدود انتظامی تجربے کے باوجود بڑے شہر کی مشینری کو مؤثر انداز میں چلانا، اور پارٹی کے اندر نظریاتی تقسیم پر قابو پانا بھی ایک بڑا امتحان ہوگا۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ممدانی کی سب سے بڑی آزمائش اقتدار کے ابتدائی مہینے ہوں گے، جن میں انہیں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنا کر عوامی اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ اگر وہ ابتدائی دنوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف نیویارک بلکہ قومی سطح پر بھی ان کی قیادت ایک نئی سیاسی سمت متعین کر سکتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں