پاکستان میں پنجاب حکومت نے وفاق سے مذہبی جماعت ’تحریک لبیک پاکستان‘ (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔ پنجاب حکومت پہلے ہی گذشتہ ہفتے ہونے والے مظاہروں کے بعد تحریکِ لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی باضابطہ سفارش کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے اس حوالے سے مراسلہ وفاقی حکومت کو ارسال کر دیا جس میں تنظیم کے پرتشدد اقدامات اور سیکیورٹی اداروں پر حملوں کے شواہد بھی شامل کیے گئے ہیں۔
لاہور میں جمعے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ مذہب کے نام پر اپنی سوچ مسلط کرنا ہر گز قبول نہیں ہے، احتجاج کی اس وقت کال دی گئی تھی جب غزہ میں جنگ بندی ہوگئی تھی۔
تحریکِ لیبک پاکستان نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب غزہ مارچ کی کال دی تھی۔
ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ اس وقت کیا گیا جب مریدکے میں تحریک لبیک کے مارچ پر پولیس کے کریک ڈاؤن اور مبینہ ہلاکتوں اور تشدد کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں مذہبی جماعت کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا جس میں پولیس افسر اور مذہبی جماعت کے کارکنوں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں پنجاب پولیس پرتشدد احتجاج میں ملوث تین ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار کرچکی ہے۔
پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعت پر پابندی لگانے کا طریقہ کیا ہے؟
پاکستانی آئین کے تحت وفاق کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انتشار پھیلانے اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی جماعت پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔
قانونی طریقہ کار کے مطابق وزارتِ داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی منظوری وفاقی کابینہ دیتی ہے۔ اس منظوری کے بعد وزارت داخلہ پارٹی پر پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری کرتی ہے۔ اس نوٹی فیکیشن کی روشنی میں الیکشن کمیشن پارٹی کو ڈی لسٹ کرتے ہوئے اس کی رجسٹریشن ختم کر دیتی ہے۔
اس اقدام کے نتیجے میں اگر پابندی کی زد میں آنے والی جماعت کی کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی ہوگی تو ان ارکان کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اگر پارٹی پر پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری ہونے سے قبل ارکان اسپیکر کو تحریری طور پر اپنی پارٹی سے وابستگی ختم کرکے آزاد حیثیت میں رہنے کے بارے میں آگاہ کر دیں تو ان کی رکنیت ختم نہیں ہوتی۔ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی رکنیت ختم ہوتی ہے بلکہ وہ ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہتے۔
جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگتی ہے تو اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔ اس کے لیے وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد پندرہ دن میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے۔‘
لیکن اگر سپریم کورٹ بھی وفاقی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دے دیتی ہے تو اس جماعت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ پارٹی ختم ہونے کا مطلب ہے کہ حکومت اس کے دفاتر سیل اور اثاثہ جات قبضے میں لے کر بینک اکاؤنٹس منجمند کر دیتی ہے۔ اور وہ سیاسی و مذہبی جماعت انتخابات لڑنے کے لیے بھی حصہ نہیں لے سکتی۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 17 میں سیاسی جماعتوں کو اپنے مالی ذرائع بتانے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔
ماضی میں کون کونسی سیاسی جماعتیں پابندی کا شکار ہوچکی ہیں؟
اس سے قبل اپریل 2021 میں پاکستان تحریِک انصاف کی حکومت نے ٹی ایل پی پر انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت پابندی عائد کی تھی۔
اس کے علاوہ پاکستان میں مختلف ادوار میں کچھ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں۔ پابندی کا شکار ہونے والی دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ پاکستان بھی شامل ہیں۔