کیمبرج یونیورسٹی لائبریری میں کچھ قیمتی تاریخی دستاویزات محفوظ ہیں جن میں آئزک نیوٹن کے خطوط، چارلس ڈارون کی نوٹ بکس، نایاب اسلامی متون اور نیش پیپائرس جیسے نادر نسخے بھی شامل ہیں۔
یہ تمام نازک تحریریں مخصوص ماحول میں سنبھال کر رکھی گئی ہیں تاکہ وقت کے اثرات سے محفوظ رہیں۔
لیکن حال ہی میں جب مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے دفتر سے 113 ڈبے کاغذات اور یادگار اشیا کی شکل میں لائبریری کو موصول ہوئے تو انہیں ایک انوکھے مسئلے کا سامنا ہوا۔ ان اشیا کے ساتھ پرانی فلوپی ڈسکس بھی موجود تھیں، ایک ایسی ٹیکنالوجی جو اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔
برطانوی سائنسدان اور مصنف اسٹیفن ہاکنگ۔
ان فلوپی ڈسکس میں وہ معلومات محفوظ ہو سکتی ہیں جو یا تو فراموش ہو چکی ہیں یا پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔ ان میں ہاکنگ کی تقاریر، خطوط اور سافٹ ویئر حتیٰ کہ کچھ گیمز بھی شامل ہو سکتے ہیں جو ان کے ذاتی مزاج کی جھلک پیش کرتے ہیں۔
’فیوچر نوسٹیلجیا پروجیکٹ‘
کیمبرج یونیورسٹی لائبریری کے ’فیوچر نوسٹیلجیا‘ نامی پروجیکٹ کا مقصد ان پرانی ڈسکوں سے معلومات نکال کر محفوظ کرنا ہے تاکہ یہ قیمتی تاریخی ریکارڈ ضائع نہ ہوں۔
پروجیکٹ کی سربراہ لیونتین ٹالبوم کہتی ہیں کہ ہمیں زیادہ تر مواد ایسے افراد سے مل رہا ہے جو ریٹائر ہو رہے ہیں یا وفات پا چکے ہیں اس لیے اب ہمیں پرسنل کمپیوٹر (پی سی) کے دور کی چیزیں زیادہ مل رہی ہیں۔
یہ فلوپی ڈسکس اگرچہ پلاسٹک سے بنی ہوتی ہیں جو بظاہر کاغذ سے زیادہ پائیدار لگتی ہیں مگر ان کے اندر مقناطیسی سطح وقت کے ساتھ اپنی تاثیر کھو دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں محفوظ ڈیٹا مستقل طور پر ضائع ہونے کے خطرے میں ہے۔
ڈیجیٹل وراثت کا بحران
لیونتین ٹالبوم کا کہنا ہے کہ ایک پرانی کتاب کو پڑھنے کے لیے صرف زبان جاننا ضروری ہوتا ہے مگر فلوپی ڈسک کا ڈیٹا دیکھنے کے لیے مخصوص ہارڈویئر اور سوفٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے جو آج کل نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔
پروجیکٹ میں شامل ماہرین کو بعض اوقات ان ڈسکس کو پڑھنے کے لیے پرانے کمپیوٹرز، ڈرائیوز، وولٹیج ایڈاپٹرز اور حتیٰ کہ نئے کنیکٹرز بنانے پڑتے ہیں۔
مثال کے طور پر برطانیہ کے سابق سیاستدان نیل کِنکاک کی 3 انچ کی فلوپی ڈسکس جن پر کبھی تقریریں یا خطوط محفوظ کیے گئے تھے ایک نایاب فارمیٹ میں تھیں جنہیں پڑھنے کے لیے مخصوص Amstrad ڈرائیو اور خاص آلات تیار کرنا پڑے۔
ماضی کو سمجھنے کی جدوجہد
پروجیکٹ کے محققین کا کہنا ہے کہ اگر ان فلوپی ڈسکس سے ڈیٹا نکال بھی لیا جائے تو اکثر اس ڈیٹا کو قابلِ فہم بنانے کے لیے مزید کوشش درکار ہوتی ہے۔
کیمبرج کی ایک تحقیقی ٹیم سے منسلک پیٹر رِیس اس عمل کو ’لسانی ترجمے‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے کوئی ماہر لسانیات لاطینی زبان کا ترجمہ کرتا ہے ویسے ہی ہم پرانی کوڈنگ کو آج کی زبان میں منتقل کر رہے ہیں۔
عوام کی شمولیت
اس کوشش میں عوام کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔9 اکتوبر 2025 کو کیمبرج یونیورسٹی میں ایک ’فلوپی ورکشاپ‘ منعقد کی گئی جہاں لوگ اپنی پرانی فلوپی ڈسکس لائے تاکہ ان میں محفوظ یادداشتوں کو دوبارہ دریافت کیا جا سکے۔
ماہر کرس نولز کہتے ہیں کہ یہ صرف تاریخ دانوں کا کام نہیں بلکہ یہ عام لوگوں کو بھی اپنی خاندانی تاریخ دوبارہ دریافت کرنے کا موقع دیتا ہے۔
ڈسکس کیوں اہم ہیں؟
ٹالبوم بتاتی ہیں کہ 5.25 انچ کی ڈسکس ان کی پسندیدہ ہیں کیونکہ لوگ ان پر بار بار لکھتے تھے اس لیے ان کے اندر ہمیشہ کچھ نیا یا غیر متوقع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈسک پر لیبل کچھ اور کہتا ہے لیکن اندر کچھ اور ہوتا ہے اور یہی اس کام کی کشش ہے۔
پیٹر ریس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آج کی عام لگنے والی چیزیں جیسے کہ ای میلز یا کیلنڈرز کل کے نایاب تاریخی دستاویزات ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیوٹن یا ڈارون کے خطوط بھی اپنے وقت میں عام ہی لگتے تھے لیکن آج وہ ایک خزانہ ہیں۔
جدید دور میں جہاں ہم ڈیجیٹل معلومات کو ہمیشہ دستیاب سمجھتے ہیں وہاں یہ فلوپی ڈسکس ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ٹیکنالوجی بھی فراموش کر دی جاتی ہے۔ اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ہم ان معلومات سے محروم ہو جائیں گے جو کبھی مستقبل کے لیے اہم سمجھی گئی تھیں۔ یہ صرف ماضی کو بچانے کا کام نہیں بلکہ یادداشتوں کو زندہ رکھنے کی ایک جنگ ہے۔